لاک ڈاؤن،متاثر ہوتا کاروبار اور حکومتی احکامات

Apr 09, 2020

ملک بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 4000 سے زیادہ ہوگئی ہے۔ سندھ سمیت ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہے۔سندھ میں لاک ڈاؤن کو دو ہفتے ہوچکے ہیں۔ تمام بڑے اسپتالوں کے ڈاکٹرز نے کورونا وائرس کی صورتحال کے پیش نظر وزیراعلیٰ سندھ کو لاک ڈاؤن بڑھانے کا مشورہ دیدیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹرز نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صوبہ سندھ میں لاک ڈائون بڑھایا نہ گیا تو کورونا وائرس وبا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بہت بڑھ جائے گی جس سے پورے ملک کا ہیلتھ کیئر نظام بیٹھ جائے گا۔ سندھ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے صوبے میں لاک ڈاؤن کو مزید سخت بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سڑکوں اور دکانوں پر عوامی رش پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صوبے میں لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس اور رینجرز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم نے لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مجھے ابتدائی 7 روز والا لاک ڈاؤن چاہیئے۔انہوں نے حکام کو سخت ہدایت کی کہ بلاضرورت کسی کو کہیں جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ کورونا وائرس کے اعداوشمار تشویشناک ہیں۔ عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ گھروں پر رہیں، ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔بلاشبہ کورونا سے ہلاکتیں ایک سنجیدہ مسئلہ
ہے۔وزیراعلیٰ کی فکر بلاوجہ نہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس لاک ڈاؤن سے جو نقصانات ہورہے ہیں ان سے کیسے نمٹاجائے یا انکا ازالہ کس طرح کیا جائے گا۔حکومت تمام تر مسائل سے نمٹنے کی پلاننگ نہیں کر پارہی۔سب سے اہم مسئلہ گھروں میں بند لوگوں کو اشیا ئے خوردونوش پہنچانے کا ہے۔حکومت کی جانب سے کہیں کہیں راشن دیا گیا لیکن اس پر کئی سوالات اٹھ گئے۔لاکھوں کی آبادیوں میں سو یا دو سو راشن سرکاری افسر کی نگرانی میں تقسیم کیئے گئے۔اول تو لوگوں نے حکومتی سامان کو موسم بہار کی پتنگ سمجھ کر لوٹنے کے لئے دوڑ لگا دی۔حق ہے یا نہیں ضرورت ہے یا نہیں مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے کی سوچ سے زور آزمائی کردی۔پھر یہ راشن تھا بھی ناکافی۔دوسری جانب سماجی تنظیموں نے راشن تقسیم کرنا شروع کیا تو اسے سیاسی رنگ دے دیا گیا۔ایک علاقے سے ایک راشن لے جائے تو جس کو نہ ملا اس نے کردار کشی شروع کردی ایسے میں سماجی تنظیموں کا جذبہ بھی کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیا حکومت ایسا کرنے والوں کے خلاف سائبر کرائم کے تحت کوئی کارروائی کرے گی؟گڈز ٹرانسپورٹ کھول دی گئیں لیکن مکینک کی دکانیں بند ہیں۔حکومت اس پر وزیرٹرانسپورٹ سے یا کسی ایسے شخص سے جس کو اس معاملے کی سمجھ ہو سے مشاورت ہی کرلیتی۔ٹرانسپورٹرز حضرات کا کہنا ہے کہ گڈز ٹرانسپورٹ کو مکینک کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔اس کام میں استعمال ہونے والی ہیوی گاڑیاں ہزاروں میل کا سفر روزانہ طے کرتی ہیں جس کے باعث ان میں کوئی نہ کوئی خرابی آتی رہتی ہے مکینک نہ ہونے کی وجہ سے ہماری گاڑیاں کھڑی ہوگئی ہیں۔حکومت نے اجازت تو دے دی لیکن مرمت نہ ہونے کی وجہ سے کام شدید متاثر ہورہا ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو کام دوبارہ بند ہونے کا خدشہ ہے۔اسی طرح لاک ڈاؤن کی وجہ سے پالتو جانوروں اور پرندوں کی خریدوفروخت ناصرف بند ہے بلکہ دکانداروں کو سیکڑوں پرندے اورجانور گھروں میں محفوظ رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ پالتو جانوروں اور فینسی پرندے فروخت کرنے والوں کی درجنوں دکانیں ہیں۔ دکانداروں نے قیمتی جانوروں اور پرندوں کو گھروں میں منتقل کرلیا ہے جہاں وہ ان کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔اگر کہیں وکان کھل بھی رہی ہے تو کم اوقات کی وجہ سے دکانداروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔دکانداروں کا ہنا ہے کہ گھروں میں فینسی اور قیمتی پرندوں کو رکھنا کافی مشکل کام ہے سب سے بڑا مسئلہ ان کے لیے خوراک کا حصول ہے۔وہ افراد جنہوں نے گھروں میں پرندے اور جانور پال رکھے ہیں وہ بھی انکی خوراک کے حصول کے حوالے مشکلات کا شکار ہیں۔حکومت نے اسکول فیس میں 20 فیصد رعایت کا اعلان تو کردیا لیکن اسکول مالکان کے مطابق والدین فیس جمع ہی نہیں کرارہے نہ ہی سندھ حکومت کے کہنے پر بلڈنگ مالک کرائے میں کوئی چھوٹ دینے پر راضی ہیں۔یوٹیلیٹی بلز کی بات کی جائے تو کراچی میں بجلی فروخت کمپنی نے ریاست میں ریاست بنا رکھی ہے۔بل نہ لینے یا اس کی اقساط کرنے کے حکم کو ماننے کے بجائے ایوریج بلوں کے نام
پر اضافی بل بھیجے جارہے ہیں۔بلاشبہ حکومت عوام کی فکر کرتے ہوئے ہی لاک ڈاؤن کا فیصلہ کر رہی ہے لیکن اس صورتحال میں عوام کو پیش آنے والے مسائل کا حکومت کے پاس کسی قسم کا کوئی حل نہیں عوامی مسائل کے حل میں حکومت ناکام نظر آرہی ہے۔لاک ڈاؤن میں سختی اگر وقت کی ضرورت ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس وقت ایسا کرنا لازم ہے تو حکومت کو عوامی مسائل کے حل کے لئے بھی پلاننگ کرنا ہوگی۔پاکستان کے ہر صوبے ہر شہر میں ہی لاک ڈاؤن کے باعث اربوں کا نقصان ہورہا ہے۔ سندھ میں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ صوبائی حکومت نے مختلف طبقات کو ریلیف کیلئے آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مجوزہ آرڈیننس کے مندرجات پر غور مکمل کیا جا چکا ہے۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ نے کابینہ کے سینئر ارکان سے مشاورت مکمل کر لی ہے۔ مجوزہ آرڈیننس میں مختلف سیکٹرز کیلئے محصولات کی وصولی نرم کی جائے گی۔ صوبائی محصولات کی وصولی میں رعایت بھی مجوزہ آرڈیننس میں شامل ہے۔مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کو فوری طور پر آرڈیننس کا ڈرافٹ تیار کرنے کا حکم دیدیا گیا ہے۔ ریلیف دینے کیلئے ٹیکسز میں تین ماہ چھوٹ دی جائے گی۔دیکھنا یہ ہوگا کہ آرڈینس کس حد تک عوام کو ریلیف دیتا ہے۔اس معاملے میں یہ بات بھی اہم ہوگی کہ کیا یہ آرڈیننس اور احکامات صرف کاغذات تک ہوں گے؟جیسے بجلی کے بل معاف ہوئے،گھر گھر راشن پہنچا،مالک مکانوں کے کرایہ معاف کیا،ملازمین کو تنخواہیں مل گئیں یا پھر اب کی بار احکامات کو عملی طور پر لاگو کرا کر عوام کو واقعی ریلیف دیا جائے گا۔

مزیدخبریں