وفاقی کابینہ کے اجلاس کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ چینی کی سبسڈی کا فیصلہ اسد عمر کی نگرانی میں کیا گیا۔ مراد سعید کہتے ہیں کہ اس عمر ذمہ داری تسلیم کریں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سبسڈی اور قیمتیں بڑھنے کا نقصان کس کو ہوا ہے۔ کسی کو سبسڈی مل گئی تو کسی کو بھاری منافع مل گیا۔ دھکے عوام کھا رہی ہے اور بوجھ بھی عام آدمی کی جیب پر مسلسل پڑ رہا ہے۔ اسد عمر ذمہ داری تسلیم بھی کر لیں تو کیا ہو گا۔ کابینہ کے ایسے سارے اجلاس عوامی سطح پر واہ واہ کے لیے بہت اچھے لگتے ہیں۔ ہمخیال لوگ خوش ہوں گے کہ دیکھا پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی حکمران جماعت کی کابینہ میں اپنے ہی وزراء کو اتنی سخت تنقید اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ یار لوگ اس کی مثالیں بھی دیں گے اور نعرے لگائیں گے کہ یہ ہوتی ہے تبدیلی، اسے کہتے ہیں حکومت، یہ ہے جمہوریت۔ کتنے سادہ اور معصوم ہیں بے چارے ووٹرز بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو جاتے ہیں۔ دراصل ایسی باتیں کرنے والے دو طبقے ہیں ایک وہ جنہیں آٹے کی قلت اور قیمتوں میں اضافے یا پھر چینی کی قیمتیں ساتھ سے سو پچانوے روپے فی کلو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یا وہ دیوانے جو ہر حال میں کسی بھی سیاسی جماعت کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ جنہیں پیپلز پارٹی والے جیالے کہتے ہیں۔ یہ دونوں طبقے ہر حال میں اپنی جماعت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں بھی وہ لوگ یقیناً عوام پر بوجھ اور تکلیف کا باعث بننے والے وفاقی و صوبائی کی ہر فورم پر حمایت اور دفاع کر رہے ہوں گے۔ ہم انہی صفحات پر درجنوں مرتبہ عوامی مسائل کے حوالے سے لکھ چکے ہیں کہ متعلقہ وزارتوں اور ذمہ دار شخصیات میں معاملہ فہمی کی کمی، کاموں میں غیر سنجیدہ رویہ مسائل میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔
مہنگائی تو خالصتاً ایسا مسئلہ ہے جس میں پورے ملک میں صوبائی حکومتیں اور وفاق دونوں کی کارکردگی نہایت خراب رہی ہے۔ آپ دیکھیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سب سے زیادہ جس معاملے پر تنقید اور عوامی ردعمل کا سامنا رہا ہے وہ مہنگائی ہے۔ اگر حکومت کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے تو اس کی وجہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور ان چیزوں کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے یہاں سے اگر عوام کی زندگی مشکل ہو گی تو اس کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے اور اس کا اثر بھی شدید ہوتا ہے۔ یہی صورت حال دیگر صوبوں میں بھی رہی۔ حکومت اس معاملے میں ابھی تک مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچ سکی اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ مہنگائی کو قابق کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اس بنیادی مسئلے کی وجہ سے مسائل کا سامنا رہا لیکن اس کے پائیدار اور مستقل حل کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ملکی سطح پر ایک بڑے بحران کا سامنا ہے اور پارٹی میں اندرونی سطح پر بھی تقسیم اور اختلافات میں شدت آئی ہے۔ پی ٹی آئی کو مالی لحاظ سے اچھے حالات میں حکومت نہیں ملی لیکن دوسری طرف امن و امان کے حالات نہایت اچھے تھے۔ ملک اے دہشت گردی کے خاتمے میں افواج پاکستان، حساس اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہت محنت کی۔ قیمتی جانوں کی قربانی دی ان قربانیوں کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال اتنی بہترین تھی کہ دیگر مسائل پر قابو پانا آسان تھا لیکن امن و امان کی اس مثالی صورت حال سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ اس کی ناکامی کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر ہے۔ ان ناکامیوں کا سلسلہ طویل ہوتا جا رہا ہے اور تازہ بحران حکومت کی ناکامیوں میں ایک اور اضافہ ہے۔ پشاور بی آر ٹی اور مہنگائی ان دو شعبوں میں پی ٹی آئی کے وزرائ کے پاس کوئی جواب نظت نہیں آتا۔ مہنگائی کی وجہ سے حکومت کی مقبولیت میں کمی آئی، تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا اور عوام کی عمران خان سے وابستہ امیدیں مایوسی میں بدل رہی ہیں بدقسمتی سے اتنی خراب صورتحال کے باوجود بہتر، بروقت اور سخت فیصلوں میں تاخیر کی جا رہی ہے۔
جب کابینہ میں یہ باتیں ہوتی رہیں کہ گندم باہر بھجوانے کا بتایا جاتا رہا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ گندم تو افغانستان سمگل ہوتی رہی ہے ان حالات میں کون کسے ذمہ دار ٹھہرا سکتا ہے۔ فیصلے اوپر ہوتے رہے ہیں، کام اوپر ہوتا رہا ہے اور قربانی ایک عوامی سیاست دان اور سیاسی کارکن سمیع اللہ چودھری کی دے دی گئی ہے۔ کیا اکیلا سمیع اللہ چودھری اس بحران کا ذمہ دار ہے اگر وہ ذمہ دار نہیں تھا تو استعفیٰ کیوں منظور کیا گیا۔ اگر اخلاقی بنیادوں پر ایک صوبائی وزیر مستعفی ہو سکتا ہے تو وفاقی کابینہ میں موجود دیگر افراد کیا دودھ کے دھلے ہیں۔ آٹا چینی بحران میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں تو انہیں بھی گھر بھیجنا چاہیے۔ اگر صوبے کی سطح ہر ناکامی ہوئی ہے تو صوبے کے چیف ایگزیکٹیو کہاں سوئے ہوئے تھے۔ انہیں کیوں کھلی آزادی دی گئی ہے۔ یہ لوگ تو تبدیلی کے دعوؤں اور عوام کو مافیا سے نجات دینے کے وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے لیکن یہاں تو سب کے سب ہی مافیا بنے بیٹھے ہیں۔ اصل مافیا وہ ہے جو عوام کا خون چوستا ہے وہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے۔ پھر تبدیلی کہاں ہے۔ آٹا چینی کے حقیقی ذمہ دار تو ابھی تک عہدوں پر موجود ہیں۔ پنجاب میں متعلقہ وزارت نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے کہ یہاں کسی کو کچھ نظر نہیں آتا۔
عوام کو ریلیف چاہیے، عوام کو وزراء کی تبدیلی اور رد و بدل سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ عمران خان کب تک وزراء کی کرسیاں اور ان کے چہرے بدلتے رہیں گے۔ عوام کی زندگی میں آسانی کا سفر شروع ہونے میں کتنا وقت اور لگے گا۔ آنے والے حالات تو بہت مشکل نظر آتے ہیں جو بھلے حالات میں اچھے فیصلے نہیں کر سکے مشکل حالات میں ان سے بہتری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔