آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے: کپتان اظہر علی

لاہور(سپورٹس رپورٹر) پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی کا کہنا ہے کہ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ میں نمبر ون پوزیشن حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ تاثر درست نہیں کہ میں ایک دفاعی کپتان ہوں، میچ کی صورتحال کے مطابق ہی سب چیزوں کو لے کر چلنا ہوتا ہے۔ ایک روزہ انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ چکا ہوں واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میڈیا نمائندوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے اظہر علی کا کہنا تھا کہ خراب کارکردگی ڈریسنگ روم کا ماحول بھی خراب کر دیتی ہے چاہیے انٹرنیشنل کرکٹ ہو یا پھر ڈومیسٹک کرکٹ۔ اظہر علی کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ کرکٹ بہت کم ہو رہی ہے لہذا میری کوشش ہوتی ہے کہ اس میں اچھے سے اچھا پرفارم کروں۔ کوئی ہیڈ کوچ نہیں چاہتا کہ اس کی ٹیم ناکام ہو۔ مصباح الحق اور وقار یونس کا اپنا اپنا انداز ہے۔ جب وقار یونس ہیڈ کوچ تھے تو ان کی اپنی حکمت عملی ہوتی تھی اب مصباح الحق ہیڈ کوچ ہیں ان کی اپنی حکمت عملی ہے۔ اظہر علی کا کہنا تھا کہ موجودہ سسٹم بہت اچھا ہے جس میں ہیڈ کوچ ہی چیف سلیکٹر ہے اس سے معاملات کے حل میں کافی آسانی ہوئی ہے تاہم دورہ آسٹریلیا سے لیکر اب تک مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا ہے۔ مصباح الحق کے ساتھ کافی انڈرسٹینڈنگ ہے۔ کوئی بات ہو تو اس پر ان کو منانا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان سمیت تمام ٹیموں کو چیلنج درپیش ہے۔ یہ سب کے لیے ہے۔ امید کرتا ہوں کہ جب کرکٹ کی واپسی ہوگی تو کھلاڑی جلد سے جلد پریکٹس کے ذریعے اپنی فارم کو حاصل کر لینگے۔ کسی بھی سیریز سے پہلے کھلاڑیوں کو اپنی فارم حاصل کرنے کا ٹائم مل جائے گا۔ ہیڈ کوچ مصباح الحق کے ساتھ کبھی اختلاف رائے نہیں ہوا ہے۔ جب بھی بیٹھتے ہیں تو کسی نتیجے پر پہنچ کر ہی اٹھتے ہیں۔ مجھے مکمل اتھارٹی حاصل ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کو بہت کم ٹیسٹ میچز ملتے ہیں۔ کورونا وائرس کا موجودہ سسٹم کب تک چلتا ہے, اگر خدانخواستہ لمبا ہوتا ہے تو یہ کرکٹ کے لیے بھی بہت نقصان دے ہو سکتا ہے۔ کسی بھی کھلاڑی کو ٹی ٹونٹی کرکٹ فارمیٹ کی کارکردگی پر ٹیسٹ ٹیم میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے اس کے لیے کھلاڑی کی ڈومیسٹک کرکٹ کی کارکردگی کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ اظہر علی کا کہنا تھا کہ گھٹنے کی انجری کی وجہ سے سات آٹھ ماہ تک کرکٹ سے باہر رہا۔ ون ڈے کرکٹ میں واپس آیا تو اس وقت پرفارم نہیں کر پایا جس پر میں نے ایک روزہ کرکٹ کو خیرباد کہا اور تمام فوکس ٹیسٹ کرکٹ پر دینا شروع کر دی۔ اظہر علی کا کہنا تھا کہ کمنٹری کرنے کا تجربہ بھی بہت اچھا رہا ہے جس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میری کوشش ہے کہ میں ٹیم میں رہوں یا نہ رہوں لیکن ایک ایسا ماحول بنا کر جاوں کہ کھلاڑیوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ ہر کھلاڑی ٹیم کے بارے میں سوچے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ کھلاڑی کے اندر جو ایک شکست کا خوف ہوتا ہے اسے ختم کرنا ہوگا۔ ٹیم جب انڈر پریشر ہوتی ہے تو ڈریسنگ روم کا ماحول بھی خراب ہوتا ہے، انڈر پریشر میں کھلاڑی کبھی اچھا پرفارم نہیں کر پاتا۔ کرکٹ کو انجوائے کر کے کھیلنا چاہیے۔ ایسے بہت سارے آئیڈیاز ہیں جن پر کام کیا جا رہا ہے۔ کھلاڑیوں کو یہی سیکھنا ہے کہ انڈر پریشر میں کسی طرح پرفارم کرنا ہے۔ ہمارا اصل فوکس اگلی سیریز پر ہے جس میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف جیتنا ضروری ہے جس کے بعد ہمارے پاس چانس ہوگا کہ فائنل تک پہنچیں۔ آئی سی سی بھی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے متاثرہ میچز کے شیڈول میں کوئی تبدیلی کرئے گا اور ٹیموں کو مناسب وقت مل جائے گا۔ اظہر علی کا کہنا تھا کہ میں نے آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کا آغاز آسٹریلیا سے کیا تھا، وہاں ہماری کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔ ایک سوچ لیکر چلے تھے جس کی بنا پر ٹیم نے اچھا پرفارم کرنا شروع کر دیا ہے۔ امید کرتا ہوں اپنی ٹیسٹ کی کارکردگی کو مستقبل میں بھی بحال رکھیں گے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے، کرکٹرز کو بھی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ دعا کرتا ہوں کہ یہ جلد ختم ہو اور زندگی نارمل ہو۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ سوشل سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو کر رہیں۔ سب دعا کریں کہ یہ مشکل وقت جلد گزر جائے۔

ای پیپر دی نیشن