کسی زمانے میں عمران خان صاحب کے قریب ترین رہے جہانگیر ترین بالآخر ٹی وی سکرینوں پر پھٹ پڑے ہیں۔ اندازے اب یہ لگائے جارہے ہیں کہ تحریک انصاف کی صفوں میں سے مزید کتنے ایم این ایز او ر ایم پی ایز ان سے یکجہتی کے اظہار کو مجبور ہوں گے۔ عمران صاحب سے تقاضہ ہوگا کہ وہ اپنے دیرینہ دوست کو انصاف فرا ہم کریں جن کے نجی طیارے نے انہیں وزیر اعظم کے منصب تک پہنچانے میں کلیدی کردار اداکیاتھا۔ عمران خان صاحب نے مطلوبہ ’’انصاف‘‘ مہیا کرنے سے انکار کردیا تو پھر کیا ہوگا۔اس سوال کا جواب فی الوقت روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی ’’ذہن سازوں‘‘ نے فراہم نہیں کیا۔ ان کا ’’تجزیہ‘‘ البتہ یہ عندیہ دے رہا ہے کہ عمران حکومت کوغیر مستحکم کرنے والی گیم لگ چکی ہے۔
ان تجزیہ کاروں کی دانست میں پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ دعویٰ درست تھا کہ جلسے ،جلوسوں اور لانگ مارچ میں وقت ضائع کرنے کے بجائے قومی اور پنجاب اسمبلی میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے خلاف تحاریک عدم اعتماد پیش کی جائیں۔یوں ’’سسٹم‘‘ کو نقصان پہنچائے بغیر پارلیمان کو برقرار رکھتے ہوئے عمران خان اور عثمان بزدار سے ’’نجات‘‘ کی راہ نکل آئے گی۔اپنے ’’بیانیے‘‘ کے جنون میں اندھی ہوئی نواز شریف کے ’’ذہنی غلاموں‘‘ پر مشتمل مسلم لیگ (نواز)مگر اس کے لئے رضا مند نہیں ہوئی۔استعفوں پر زور دیتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو بلکہ منتشر کردیا۔ اس جماعت کا یہ خیال بھی تھا کہ یوں ’’سب پہ بھاری‘‘ سیاسی میدان میں تنہا ہوجائیں گے۔جہانگیر ترین کی طویل خاموشی کے بعد ٹی وی کیمروں کے روبرو ’’باغیانہ‘‘ گفتگو مگر پیغام دے رہی ہے کہ سفر کا ارادہ باندھ لیا جائے تو ’’مسافر نواز بہتیرے‘‘۔
جہانگیر ترین کا متحرک ہوجانا Breaking Newsبناکر نمایاںکیا جارہا ہے۔اس کالم کے لئے زیادہ سے زیادہ Likesاور Sharesحاصل کرنے کے لئے مجھے بھی ان کی ’’بغاوت‘‘ کو زیر بحث لانا چاہیے۔ جی مگر اس جانب مائل نہیں ہورہا۔ نجانے کیوں آج سے چند برس قبل ایم کیو ایم سے جدا ہونے والے مصطفیٰ کمال یاد آرہے ہیں۔انہوںنے بہت دھوم دھام سے ایک نئی جماعت بنائی تھی۔میں اسے ’’کمال کی ہٹی‘‘ پکارتا رہا۔ 2018کے انتخاب نے اس ہٹی کی اصل اوقات ثابت کردی۔ ایم کیو ایم اس کی بدولت تتر بتر ہوگئی مگر کراچی سے تحریک انصاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سب سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوگئی۔
جہانگیر ترین تو ابھی کامل ’’باغی‘‘ بھی نہیں ہوئے۔ اپنی وفاداری بلکہ یا د دلائے چلے جارہے ہیں۔اپنے دیرینہ دوست کو متنبہ کررہے ہیں سازشیوں کا ٹولہ ان کے دل میں بد گمانیاں پیدا کرتے ہوئے انہیں جہانگیر ترین جیسے مخلص دوستوں سے جدا کررہا ہے۔’’سازشیوں‘‘‘ کا نام لینے سے مگر اب بھی کترارہے ہیں۔فریاد فقط اتنی ہے کہ ’’مہربان ہوکے بلالو جب چاہے‘‘۔میڈیا نے ان کی فریاد بھرپور انداز میں اجاگر کردی ہے۔اب وہ جانیں اور عمران خان۔میں اس ضمن میں ’’تجزیہ نگاری‘‘ میں وقت کیوں ضائع کروں۔
جس ’’صحافت‘‘ کا میں عادی رہا ہوں اس کے بنیادی تقاضوں کا احترام کروں تو گزشتہ چند دنوں میں اصل ’’خبریں‘‘ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی تیار کردہ ان رپورٹروں نے فراہم کی ہیں جن میں پاکستان کے اقتصادی امکانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔عالمی معیشت کے نگہبان یہ ادارے وطنِ عزیز میں مہنگائی اور بے روزگاری کی لہر کو شدید تر ہوتا دکھارہے ہیں۔جہانگیر ترین کی ممکنہ ’’بغاوت‘‘ اس تناظر میں میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والے بدنصیبوں کے دُکھوں کا مداوا نہیں بلکہ ہماری توجہ کو فروعی معاملات کی جانب موڑنے والا بہلاوا ہے۔
یہ بات بھی ابھی تک واضح نہیں ہوئی کہ مزید تین ہفتے گزرجانے کے بعد بائیڈن انتظامیہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا وعدہ نبھائے گی یا نہیں۔دوحہ مذاکرات کے دوران یکم مئی 2021تک افغانستان سے کامل انخلاء کا وعدہ ہوا تھا۔ یہ وفا نہ ہوا تو طالبان کیار ویہ اختیار کریں گے اس کی بابت بھی ہمارے ’’ذہن ساز‘‘ خاموش ہیں۔روسی وزیر خارجہ کے حالیہ دورئہ پاکستان نے اگرچہ انہیں کچھ اطمینان دلایا ہے۔دعویٰ ہے کہ نئی تاریخ بننے جارہی ہے۔روس،چین ،ایران، ترکی اور پاکستان بتدریج ایک ایسے بندوبست کی جانب بڑھ رہے ہیں جو توانائی اورانسانی قوت سے مالامال اس خطے کے لئے دُنیا کی واحد سپرطاقت ہونے کے دعوے دار امریکہ کوقطعاََ Irreleventبنادے گا۔
Strategicکا اُردو ترجمعہ ’’تزویراتی‘‘ بتایا جاتا ہے۔یہ مجھے کبھی سمجھ ہی نہیں آیا۔ لائوڈسپیکر کو بھی ایک زمانے میں ’’آلۂ مکبرالصوت‘‘ پکارنے کی کوشش ہوئی تھی۔یہ مگر کامیاب نہیں ہوئی۔
بہرحال ’’تزویراتی‘‘محاذ پر جو منظر بن رہا ہے اس کے بارے میں بھارت کا رویہ ابھی تک واضح نہیں ہورہا۔پاکستان کا وہ ازلی دشمن ہے۔اپنا دل بڑارکھتے ہوئے مگر ہم اسے سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جغرافیائی حقیقتوں کا ادراک کرے۔امریکہ کی تھپکی سے خود کو عوامی جمہوریہ چین کے مقابل لانے سے اجتناب برتے۔صنعتی اعتبارسے اسے ایک طاقت ور ملک بنناہے تو نئے کارخانوں کے لئے بجلی وغیرہ بھی درکار ہوگی۔ روس اور ایران تیل اور گیس کے ذخیروں سے مالا مال ہیں۔افغانستان اور پاکستان کے زمینی راستوں کے ذریعے ان دو ممالک سے بھارت کو وافر تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کے ذریعے فراہمی سستااور معقول Optionہے۔ بھارت لہٰذا بندے کا پتر بنے اور اس سہولت سے استعفادے پر توجہ دے۔پاکستان کے ساتھ خواہ مخواہ کی رعونت برتنے کے بجائے مذاکرات کی میز پر آئے۔
اس برس کے آغاز میں چند ٹھوس اشارے نمودار ہونا شروع ہوگئے جو عندیہ دے رہے تھے کہ غالباََ مودی سرکار اب ’’میں نہ مانوں‘‘ والے رویے کو ترک کرنے کو مائل ہورہی ہے۔فروری کے آخری ہفتے میں ’’اچانک‘‘ خبر آئی کہ کشمیر پر قائم لائن آف کنٹرول پر امن کا ماحول بنانے کے لئے سیز فائر کے اس معاہدے کا کامل احترام ہوگا جو واجپائی اور جنرل مشرف کے مابین 2003میںطے ہوا تھا۔
مذکورہ معاہدے کا اعلان ہوگیا تو سفارت کاری کی نزاکتوں سے بخوبی آگاہ مفکرین اور تبصرہ نگاروں نے ہمیں سمجھانا شروع کردیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بیک ڈورڈپلومیسی یا خفیہ سفارت کاری کا سلسلہ بحال ہونے کے بعد بارآور ہونا شروع ہوگیا ہے۔امید دلائی گئی کہ ’’سیز فائر‘‘ کے بعد اب تاجکستان کے دارالحکومت میں ہوئی ایک کانفرنس کے دوران پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے مابین ایک ملاقات ہوگی۔متوقع ملاقات کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے ہائی کمشنر نئی دہلی اور اسلام آباد میں قائم سفارت خانوں کی سربراہی سنبھالنے اپنے دفاتر لوٹ آئیں گے۔اس برس کے ستمبر-اکتوبر میں SCOکے نام سے قائم تنظیم کے زیر اہتمام پاکستان میں جنگی مشقوں کی بات بھی چلی جس میں حصہ لیتے ہوئے بھارتی فوجی دستے ’’تاریخ‘‘ بناسکتے تھے۔
دوشنبہ کانفرنس مگر اب ختم ہوچکی ہے ۔پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ وہاں موجود تھے۔ان دونوں نے مگر ایک دوسرے سے رسمی مصافحہ سے بھی گریز کیا۔ شاہ محمود قریشی وطن لوٹے تو وفاقی کابینہ کو قائل کیا کہ بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد کرنے والے فیصلے کو ’’مؤخر‘‘ کردیا جائے۔ سفارت کاری کی نزاتوں سے بخوبی آگاہ مفکرین اور تبصرہ نگاروں کے بیان کردہ Scripts’’اُڑنے بھی نا پائے تھے-‘‘ والے مخمصے کا شکار ہوگئے۔
دریں اثناء بھارت کے سنجیدہ تصور ہوتے اخبار The Hinduمیں ایک بھارتی سفارت کار کا تفصیلی انٹرویو شائع ہوا۔موصوف کا آبائی تعلق پشاور سے ہے۔پاکستان میں اپنے ملک کے سفیربھی رہے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین ٹریک-ٹو مذاکرات میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ان کا مشورہ تھا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا ہے تو پاکستان کے آرمی چیف اور بھارتی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی کے درمیان مذاکرات ہوں۔واہی تباہی مچانے والے میڈیا کو ان مذاکرات کی بھنک بھی نہیں پڑنا چاہیے۔مذکورہ سفارت کار کے بعد The Pointکو انٹرویو دیتے ہوئے Rawکے ایک سابق سربراہ نے بھی اس تجویز کو ’’اپنے تئیں‘‘ دہرایا۔ان دونوں کی گفتگو کو ذہن میں رکھتے ہوئے برطانیہ کے معروف اخبار ’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے ’’بازی‘‘ جیت لینے کی خاطر ایک سنسنی خیز ’’خبر‘‘ دی جو دعویٰ کررہی تھی کہ جو تجاویز ایک بھارتی سفارت کار اور را کے سابق سربراہ کی بدولت منظر عام پر آرہی ہیں ان پر پہلے ہی سے عمل ہورہا ہے۔ٹھوس حقائق سے قطعاََ بے خبر ہوتے ہوئے بھی میں مذکورہ ’’خبر‘‘ کی صداقت تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔وہ ’’خبر‘‘ کیا ہے اسے بیان کرنے کا مگر حوصلہ نہیں۔بہتر یہی تھا کہ جہانگیر ترین کے بارے میں پھکڑپن پر اکتفا کرتا۔