جدید ٹیکنالوجی وائٹ کالر کرائم کی سہولت کار، تحقیقاتی ادارہ محض پوسٹ آفس

لاہور ( محمد اکرم چودھری سے )  ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں وائٹ کالر کرائم اور مالی معاملات کی کرپشن کا ڈھونڈنا ہر آنے والے دن میں مشکل ہوتا جارہاہے۔ جتنے قوانین سخت بن رہے ہیں اتنی ہی جدید ٹیکنالوجی وائٹ کالر کرائم کی سہولت کار بن رہی ہے۔ سابقہ ادوار میں کرپشن کے ایسے ایسے راستے نکالے گئے جنہیں احتساب کے دائرے میں لانا نوکر شاہی اور سیاستدانوں کی ملی بھگت نے انتہائی مشکل بنادیا ہے۔ مسلم لیگ کے دور میں جتنے بھی ترقیاتی کام ہوئے وہ سارے کے سارے نان شیڈو ل آئٹم ریٹ پر ہوئے۔ نان شیڈو ل کرپشن کا اتنا بڑا ذریعہ ہے جسے پکڑنا تیسری دنیا کے ممالک میں بہت مشکل ہے اور پاکستان کے احتساب کے اداروںکو ایسی ہی مشکلات کا سامنا ہے۔ سڑکوں پر لگنے والی ایل ای ڈی لائٹ بلدیہ لاہورکا ایک ٹاؤن فی لائٹ30 ہزار قیمت پر خریدتا ہے اور دوسرا ٹاؤن فی لائٹ 45 ہزارکی قیمت پر خریدتا ہے اور سی ڈی اے وہی لائٹ 55 ہزار روپے پر خریدتی ہے۔ تینوں خریدار ہی اپنی جگہ درست ہیں تو پھران سب کا احتساب کیسے ہوگا ؟چوروں سے پیسہ نکلوانا آسان کام نہیں اور پھر تفتیش کی کمزوریاں جب ملزم کو سپورٹ کرتی ہوں تو تحقیقات اور بھی مشکل ہوجاتی ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جن کا سامنا اس وقت پاکستان کے نظامِِ احتساب کو ہے۔ چوراورچوکیدار کا چالیس سالہ مضبوط گٹھ جوڑ ایک نسل سے دوسری نسل اور دوستی سے رشتے داری میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہ کرپشن کا ایک ایسا حمام ہے جس میں سب ایک د وسرے کے سہولت کار ہیں اور انٹی کرپشن و ایف آئی اے کے محکمے محض پوسٹ آفس کا کردار ادا کرتے ہیں اور وہاں تفتیش کا نظام اتنا کمزور ہے کہ ملزم با آسانی بچ نکلتا ہے۔پھر ایک ادارہ نیب کا بچتا ہے جس پر اسمبلیاں ، اراکین سینٹ ، پارلیمانی کمیٹیاں ،سیاستدان ، سابقہ حکمران اور کرپشن میں سر سے پاؤں تک ڈوبے بیورو کریٹس ہر وقت تنقید کے نشتر برسانے میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ وہ مشکل حالات ہیں جن میں رہتے ہوئے موجودہ حکومت نیب کے ذریعے اس قوم کا لوٹا ہوا صوبائی حکومتوںو پرائیوٹ پارٹیوں کا کھربوں روپیہ واپس بھی لے چکی ہے اور بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق پلی بارگیننگ کے ذریعے قومی خزانے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ ویسے بھی جس معاشرے میں سرکاری املاک کی لوٹ کو مار حق سمجھا جائے اور حرام کی دولت سے حج و عمرہ بھی فخر سے کیا جائے وہاںاحتساب پر عمل جاری رکھنا انتہائی مشکل ہوتا جارہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...