کراچی (وقائع نگار/ عطاء اللہ ابڑو) سپریم کورٹ کا کمشنر کراچی کو فارغ کرنے کا حکم، چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے سے بازپرس کرتے ہوئے ناسلہ ٹاور گرانے کی بھی ہدایات جاری کردیں۔ سپریم کورٹ نے کراچی انتظامیہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کمشنر کراچی کو فارغ کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے کہا کہ شارع فیصل نالے پر قائم ناسلہ ٹاور کو فوری منہدم کیا جائے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کراچی رجسٹری میں کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران کراچی انتظامیہ اور شہر کے اداروں پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کل سپریم کورٹ کی عمارت پر دعویٰ کردیں گے۔ سپریم کورٹ کا لے آئوٹ پلان لے آئیں گے تو ہم کیا کریں گے؟۔ ریمارکس دیتے ہوئے عدالت نے کہا آپ لوگ کل سپریم کورٹ کی عمارت کسی کو دے دیں گے، کل وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کوئی عمارت بنوا دیں گے۔ ایک مولوی کو ڈی جی ایس بی سی اے بنا کر لا کھڑا کردیا۔ ہر ماہ ایس بی سی اے میں اربوں روپے جمع ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب رجسٹرار آفس، ایس بی سی اے اور ریونیو میں زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے۔ عدالتی ریمارکس سے شہری اداروں کے افسران بوکھلا گئے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی رائل پارک کیس کی سماعت بھی ہوئی۔ رائل پارک کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ کمشنر کراچی سامنے آئیں۔ چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ آپ سے جو کام کرنے کو کہا تھا کیا ہوا؟۔ کمشنر کراچی کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ پیش کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کمشنر کراچی کو فارغ کریں۔ ہمارے سامنے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ کیسے پیش کی؟۔ ہم نے سب احکامات آپ کو خود دیئے تھے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کمشنر کراچی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کا کچھ نہیں پتا، یہ صرف ربر سٹیمپ ہیں۔ کمشنر کراچی، ڈی جی ایس بی سی اے کو پتہ نہیں بعد میں کتنے نیب کیس بنیں گے۔ ہمارے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں تو لوگوں کے لیے کتنی مشکلات پیدا کرتے ہوں گے۔ ہم نے وزیراعلیٰ سندھ سے رپورٹ مانگی تھی انہوں نے بول دیا سب اچھا ہے۔ بڑی معذرت کیساتھ آپ کے بارے میں ایسا کہا مگر ہمارے سامنے ایسی رپورٹ ہیں کیا کریں۔ عدالت نے کہا کہ ایس بی سی اے چلانے والا ہر مہینے کھربوں روپے بنارہا ہے۔ سب رجسٹرار آفس ایس بی سی اے میں سب سے زیادہ کمائی ہورہی ہے۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ ہاکی گراؤنڈ اور کھیل کے میدان بنا دیئے۔ ہمارا آرڈر کیا تھا اور یہ کیا بتا رہے ہیں، کچھ معلوم نہیں؟۔ وکیل مکین ہل پارک نے عدالت سے استدعا کی کہ 4ماہ کی مہلت دے دی جائے، چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایک فیملی نے 3 گھروں پر قبضہ کر رکھا ہے، ہل پارک تجاوزات کیس میں مکینوں کی فریقین بننے کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ باغ ابن قاسم کی کیا صورتحال ہے؟۔ کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ باغ ابن قاسم میں سبزہ اگانے کا کام جاری ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ شاہراہ قائدین نالے پر عمارت کا کیا ہوا؟۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ ایس بی سی اے نے بتایا کہ نالے پر عمارت نہیں ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کمشنر کراچی پر برہم ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ایس بی سی اے کو چھوڑیں، آپ کو براہ راست حکم کا مطلب آپ کو جواب دینا ہے۔ پوری عمارت ہی نالے پر کھڑی ہے۔ ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں۔ اچانک سے ایک پلاٹ نکلتا ہے اور کثیر المنزلہ عمارت بن جاتی ہے۔ اس دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ڈی جی ایس بی سی اے کہاں ہیں؟۔ آپ ہمارے سامنے کیوں غلط بیانی کر رہے ہیں؟۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ 50سالہ پرانے علاقے میں اچانک کیسے ایک پلاٹ نکل آتا ہے؟ کیسے اچانک لیز کردی جاتی ہے؟۔ ابھی ناسلہ ٹاور کی لیز منسوخ کردیتے ہیں۔ دریں اثناء حاجی لیمو گوٹھ سے تجاوزات کے خاتمے سے متعلق سماعت کے دوران درخواست گزار خاتون نے کہاکہ گلشن اقبال کے بلاک تین کے پارک کی زمین قبضہ کرلیا گیا ہے۔ نالے کی زمین پر ملٹی سٹوری بلڈنگ بن گئی ہیں، کمشنر کراچی نے کہاکہ ہم نے تجاوزات ختم کرادی ہیں۔ جس پر خاتون نے کہا کہ نہیں سر کمشنر کراچی غلط بیانی کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نالوں پر تجاوزات کے خاتمے کے بعد لوگوں کو کہاں بسائیں گے؟۔ خاتوں نے الزام عائدکرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کے اقبال ساند و دیگر نے تجاوزات ختم نہیں کرنے دی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمشنر کراچی صاحب بتائیں یہ سب کیا ہے۔ عدالت نے کمشنر کراچی کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ نالے سے متعلق دوبارہ رپورٹ دیں تجاوزات کا خاتمہ کرائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں پتہ ہے کراچی میں فیکٹری ایریاز کے لوگ معاوضہ لیتے ہیں پھر واپس آجاتے ہیں۔ برساتی نالے بند کردیتے ہیں۔ بارشوں میں حال دیکھا تھا شہر کا؟۔ شہر میں غیر قانونی شادی ہال سے متعلق کمشنر کراچی نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہر بھر میں 157 شادی ہالز گرادیئے گئے ہیں۔ عدالت نے غیر قانونی شادی ہالز گرانے کا حکم دیدیا۔ کورنگی کراسنگ سے ناصر جمپ تک شادی ہالز گرانے کیخلاف درخواست پر سماعت جمعہ تک کیلئے ملتوی کردی۔ درخواست گزار کے وکیل انور منصور خان نے کہا کہ کورنگی روڈ پر رہائشی علاقے کو قانونی طور پر کمرشل کیا گیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کس قانون کے تحت اس روڈ کو کمرشل بنایا گیا ہے؟۔ عدالت نے مزید سماعت جمعہ تک کیلئے ملتوی کردی۔