گزشتہ رمضان المبارک میں میرے بچّے ملتان آئے تو موٹر وے پر ننکانہ صاحب کے قریب ریسٹ ایریا پر انہوں نے افطاری کی ۔ افطاری کیلئے جب ماسک اُتارے تو ہماری ایک عزیزہ جو ان کے ہمراہ تھیں ، کے کان سے ایک تولہ وزنی جھمکا وہیںگرگیا اور پتہ بھی نہ چلا ۔ ملتان آکرعلم ہوا کہ ایک کان سے جھمکا گرچکا ہے۔ پریشانی ہوئی۔اگلے دن انہوں نے میرے بیٹے کوساتھ لیا اور کہنے لگیں کہ وہیں ننکانہ صاحب ریسٹ ایریا میںڈھونڈ کر آتے ہیں۔ تین بجے کے قریب وہاں پہنچے تو اردگرد بڑے غور سے دیکھنا شروع کیا۔ اچانک انکی آنکھوں میں کسی چیز کی چمک پڑی ۔ٹف ٹائلوں کے درمیان وہی جھمکا پڑا ہوا تھا اور اسکے اُوپر اچھی خاصی مٹی پڑی تھی۔کہنے کی بات یہ ہے کہ اللہ نے صرف انہیں ہی وہ جھمکا دکھایا اور باقی لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھا۔انہوں نے مٹی ہٹائی اسے صاف کیا اور لے آئے۔جب وہ ملتان سے جانے لگے تھے تو میں نے ان سے صرف ایک سوال کیا یہ بتائیں کہ اس زیور کی زکوۃ دی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا زکوۃ بالکل دی ہوئی ہے ۔میں نے کہا اگر دی ہوئی ہے تو پھر کہیں نہیں جاتا ضرور مل جائیگا۔اور اللہ کی کرنی وہی ہوئی کہ انہیں وہ مل گیا۔
دو روز قبل بھی بے موسمی بارش، تیز آندھی اورطوفان آیا ۔ کہتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو بے موسمی بارشیں بھیجتا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے پنجاب کے ان علاقوں میں ان دنوں طوفان آتے ہیں جب گندم کی فصل کٹنے کے قریب پہنچتی ہے۔ شدید طوفان و بارش کی وجہ سے گندم کی کھڑی فصل زمین بوس ہوجاتی ہے اورکاشتکاروں کیمطابق گندم کی پیداوار میں 20سے 25 فیصد نمایاں کمی ہوجاتی ہے۔گزشتہ ہفتے حسبِ معمول موٹروے پر براستہ عبدالحکیم مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو ملتان سے لیکر شورکوٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ تک رب العالمین کی ہزاروں نشانیاں دیکھنے کو ملیں۔ اللہ صرف مسلمانوں کا رازق نہیں ہے وہ تو ہر مخلوق کے رزق کا ذمہ دار ہے۔اور اسی اللہ تبارک وتعالی نے مال پر زکوۃ اور فصلوں پر عشر کا حکم دیا ہے۔گندم پکتی ہے تو کاشتکار دن رات بارش اور طوفان سے بچاؤ کی دعا کرتا ہے مگر اللہ پاک کی طرف سے نافذ کیے گئے عشر کے نظام کی پاسداری نہیں کرتا ۔میں موٹر وے پر سفر کے دوران یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ زرعی رقبوں کی تقسیم کیلئے جو پتلی سی’’پگڈنڈی‘‘ یا ’’وٹ ‘‘ بنی ہوتی ہے، اس پر کئی جگہوں پر دیکھا گیا کہ کسی ایک ایکڑ پر کھڑی گندم صحیح و سالم ہے اور اسکے چاروں اطراف گندم کی کھڑی فصل بارش و طوفان کی نذر ہوکر زمین پر لیٹ چکی ہے ۔ اورتوجہ طلب امر یہ ہے کہ جو فصل اپنے جوبن پر طوفان کے باوجود سیدھی کھڑی ہے اس کیلئے بھی کوئی اوٹ نہیں کہ گرنے سے بچ جائے مگر کون ہے جو اسے گرنے سے بچاتا ہے ؟
یہ سوال ذہن میں بارہا آیا ۔ میں معلومات کیلئے میں شورکوٹ انٹرچینج سے باہر نکل آیا ۔ متعدد علاقوں میں گندم کی فصلیں اسی طرح گری ہوئی تھی جبکہ بعض زمینیں ایسی تھیں کہ گندم کی فصل اپنے پورے آب و تاب سے جوبن پرکھڑی تھی ۔میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ زمین کس کی ہے اور یہ کیوں طوفان کی نذر نہیں ہوئی تو وہ مجھے قریبی مسجد کے امام کے پاس لے گیا ۔ میں نے وہی سول دہرایا تو امام صاحب نے بتایا کہ اس مسجد کے ساتھ جو مدرسہ ہے اس کو عُشر کی مد میں تین سے ساڑھے تین سو من گندم یہی چودھری صاحب دیتے ہیں جن کی یہ زمین ہے۔انکی فصل بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے اورگزشتہ اٹھارہ سال سے میں اس مسجد میں امامت کے فرائض ادا کررہا ہوں ۔ میں نے کبھی ان کا نقصان ہوتے نہیں دیکھا پھر نقصان ہو بھی کیسے سکتا ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کی مخلوق کا حصہ پہلے نکال کر اپنی فصل اٹھائے اسکی حفاظت کیونکر نہ ہو ۔ کیونکہ ہر فصل میں صرف ہم انسانوں کا حصہ نہیں ہم تو اس دنیا میں سزا کے طور پر آئے ہیں، ہمیں اس زمین کے اصل باسیوں کا حصّہ تو لازمی نکالنا ہے ۔اس گندم کے بھوسے جسے توڑی کہتے ہیں، سے دودھ دینے والے جانوروں نے اپنا پیٹ بھرنا ہے اور جب گندم طوفان کی نذر ہوجاتی ہے تو گندم کا خو شہ جسے سٹہ بھی کہتے ہیں اس کا نقصان ہوتا ہے مگر بھوسے میں کمی نہیں ہوتی کہ جانوروں پر تو کوئی عشر نہیں اور اللہ نے تو ہر مخلوق کا حصّہ دینا ہے۔اس فصل کی جڑوں کو زمین کے کیڑوں نے بھی کھانا ہے۔پھر جب ہل چلنا ہے زمین نرم ہونی ہے تو ان سے نکلنے والے کیڑے مکوڑوں کو پرندوں نے بھی کھانا ہے جو ہل چلنے سے نرم ہونے والی مٹی سے نکل کر باہر آئے ہیں۔
پرانی بات ہے پاکپتن کے ایک کاشتکارکر نے مجھے بتایا کہ ہم جب انڈیا سے آئے تو ہمارے پاس چھ ایکڑ زمین تھی ۔میں ہل چلاتے ہوئے درودشریف اور سورۃ یٰسین کاورد اسی طرح کرتا ہوں جیسے میرے والد اور د ادا کیا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ جوفیصلہ آج سے ستر سال قبل میرے دادا نے کیا تھا کہ ہر سال ایک ایکڑ زمین خریدنی ہے ۔ ہم عُشر بھی دیتے ہیں اور اللہ کے نام سے اپنی صبح کا آغاز بھی کرتے ہیں۔ آج 70 واں سال ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ہرسال کوئی نہ کوئی زمیندار اپنی زمین بیچتا ہے اور شاید ہمارے لئے ہی بیچتا ہے۔ ہم ہر سال وہی بکنے والی زمین خریدتے جاتے ہیں ۔ہمیں ایک ہی چیز سمجھائی گئی کہ زمین کا مالک صرف اورصرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہے ہم تو چوکیدار ہیں
میں جب یہ سطور لکھ رہا تھا تو میلسی سے نوائے وقت کے نیوز ایجنٹ سید نوید الحسن قطبی میرے پاس بیٹھے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ اسے میلسی سائفن کے ایک زمیندار محمد امین خان نے بتایا کہ مجھے گمان تھا کہ اس سال میری اوسط گندم 30 سے 40 من ہوگی مگر اللہ نے 60 من فی ایکڑ کردی ۔ واحد وجہ یہ بتائی گئی کہ میں سود پر کھاد بیج نہیں لیتا اور پورا عشر دیتا ہوں۔