ہر طرف سیاست کی گہما گہمی ہے اور توڑ جوڑ کے ماہر اپنے گُر دکھا رہے ہیں وہیں ان سب نے عام بندے کا جینا حرام کیا ہوا ہے اور جہاں بیٹھو آگے آ پ کو مخالف نظریہ کے حمایتی بندے نظر آجاتے ہیں ، اور کچھ ہی لمحوں میں گرما گرم مباحثہ شروع ہو جاتا ہے اور اپنے کام بھول کر بندہ ان چور اچکوں کے گروہ کی کارستانیوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے ۔ میرا تو اکثر دل کرتا ہے کہ میں ایسے لوگوں سے پوچھوں کہ جناب آپ احباب میں سے کس کے گھر میں یہ لوگ جن کے لئے ہم اپنے پیاروں سے لڑ پڑتے ہیں انہوں نے دانے ڈلوا کر دئیے ہیں؟ پہلے میں بھی اس روش کا عادی تھا مگر پھر ایک دن میں نے یوٹیوب پر کچھ چینی ، یورپی اور امریکی نوجوانوں کی ویڈیوز دیکھیں ، یقین مانیں ان لوگوں کو سیاست یا اس سے جڑی باتوں سے کوئی لین دین نہیں تھاوہ صرف ایک ذمہ دار شہری کی طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے فرائض کو اچھے سے ادا کررہے ہیں اور نئی نئی طرح کی تحقیق کر رہے ہیں اور اائے دن نئی نئی ایجادات سامنے لا رہے ہیں ۔
بہرحال میں نے کچھ عرصہ سے میں نے کوشش کی کہ صرف اپنا کام کروں، سب سے پہلے اپنی ذمہ داریاں پوری کروں اور اس کے بعد کہیں بھی جائوں تو یا کوئی ملے تو اس سے آپسی معاملات کو زیرِ بحث لائوں مگر بندہ کرے تے کرے کی؟ بس ابھی دو دن پہلے کی بات ہے کہ لاہور شہر کی معروف موٹرسائیکل مارکیٹ ’ لاہور ہوٹل‘ جانا ہوا، ایک موٹر سائیکل خریدنا تھی۔ کچھ دکانیں دیکھنے کے بعد ایک جگہ دام مناسب لگے تو ہم بیٹھ گئے اور ڈیل فائنل کر دی ، مگر چند ہی لمحوں میں شوروم کے ملک جو کہ کسی جنازہ پر گئے ہوئے تھے اور واپس آتے ہی جب انہیں اس دام کا پتہ چلا جو ہمارے ساتھ طے ہوا تھا تو بیچارے سیلز مین پر چیخنا شروع کر دیاکہ تمہیں نہیں معلوم کہ کمپنی نے تمام سٹاک کے دام بڑھا دئیے ہیں اورتم سوئے ہوئے ہو؟ بہرحال جیسے ہی وہ کچھ نارمل ہوئے تو میں نے آرام سے پوچھا جناب اگر آپ ویسے جنرل نالج کے لئے رہنمائی کر دیں کہ یہ ریٹ کیوں بڑھائے جا رہے ہیں تو مہربانی ہو گی ، جب کہ ڈالر لگا تار نیچے آرہا ہے اور کم و بیش سولہ روپے اپنی قدر گنوا چکا ہے ، تو جناب ایک دم بولے ’’اوہ بادشاہو، کیہڑا ڈالر؟ ان چیزوں کی قیمت کا ڈالر سے کیا تعلق ؟ بس یہ سب کمپنیوں کا ڈرامہ ہے ، ابھی رمضان آنے والا ہے اس لئے سب کمپنیاں اپنی قیمتیں بڑھا رہی ہیں کیوں کہ رمضان میں جہاں باقی سب اشیاء صرف پر ہر بندہ ایک دوجے کو لوٹ رہا ہو گا ، ایسے میں کسی کو خبر ہی نہیں ہو گی کہ ان موٹر سائیکلوںکی قیمت میں اضافہ کب اور کیوں کر ہو گیا ہے؟ میرا تو دماغ ہی چکرا کر رہ گیا! میں نے اس صاحب کو سوشل میڈیا سے آسٹریلیا کے ایک بڑے سٹور کی فوٹو دکھائی جہاں رمضان کے تقدس میں پورا مہینہ زیادہ استعمال ہونے والی تمام اشیاء پر خصوصی چھوٹ دی گئی تھی، جس پر جناب بولے کہ بھائی جان ’’اوہ کر سکدے نیں، اسی نئیں‘‘۔ پورے سال بعد صرف ایک مہینہ ہی تو سیزن لگتا ہے ، اور ہم کیا کریں؟ یہاں سے جو پیسے لیں گے وہ دوسرے دکاندار اور پھل فروش ہم سے وصول کر ہی لیں گے، اس لئے آپ یہ بحث نا کریں اور اپنی موٹر سائیکل لے کر جائیں۔ اب یہ وہ لوگ ہیں جن کا کاروبار رمضان کے ساتھ براہ راست جڑا ہوا نہیں ہے مگر یہ لوگ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مگراب میں دو دن سے اس تذبذب کا شکار ہوں ’’کہ اوہ کر سکدے نیں، اسی نئیں‘‘۔اور دیکھا جائے تو’ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘یہاں یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوتی ہے ، یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ہم کس کو مورد الزام ٹھہرائیں؟ سیاست دانوں کو تو داد دینی چاہیے اور مجھے ان پر ترس آ رہا کہ بیچارے پورے چوبیس کروڑ عوام کی گالیاں سنتے ہیں اور بد دعائیں الگ سے ، مگر آگے سے چوں بھی نہیں کرتے ، مگر اصل مذاق تو ہمارے ساتھ ہمارے گلی محلوں اور بازاروں میں ہو رہا ہے ، اور ان میں سے کسی سے بھی آپ بات کرنے کی کوشش کریں، اونچی آواز میں اوپر سے نیچے تک سب کو گالیاں بکنے کے بعد خود کو یوں ظاہر کریں گے جیسے ولی ہوں۔
اب ایسے لوگوں کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے ؟ عمران خان کیا کرے اس کے لئے؟ سب سے بہتر تو یہی ہے کہ ایک ہنگامی ٹاسک فورس بنا دی جائے جو بر وقت یہ اندازہ لگا کے بتا دے کہ تمام ڈاکو رمضان کی بابرکت ساعتوں میں بیچارے غریبوں کو کتنا لوٹیں گے اور ان کا بوجھ کم کرنے کے لئے کتنی کو سبسڈی دے دی جانی چاہیے؟کہ ان لٹیروں کا سیزن بھی لگ جائے ، خوشی خوشی ان کا پیٹ بھی بھر جائے اور عام بندہ بھی خشوع خضوع کے ساتھ رمضان میں سحر و افطار تو کر سکے۔دیگر لوگوں سے بھی میری گزارش ہے کہ اگر آپ کو میری باتیں کڑوی لگیں ہوں تو جناب مجھے گالیاں اور بددعائیں دینے کی بجائے اس رمضان حقیقی طور پر نیکیاں سمیٹیں اور جیسے اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے ویسے رمضان کو گزرایں، ہم جس وبا کے دور سے گزر رہے ہیں کوئی علم نہیں کہ یہ ہمارا ٓخری رمضان ہوتو اپنے اعمال کو درست کر لیں، ملک اور حکومت خود ہی درست ہو جائیں گے،اور اک واری کوشش کر کے تے ویکھو! اللہ ہم سب کو اس آنے والے رمضان کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کی توفیق عطا کرے۔ اور ’’جے اوہ کر سکدے نیں، تے اسی وی کر سکنے آں‘‘۔
اوہ کر سکدے نیں، اسی نئیں…؟
Apr 09, 2021