کیا کپتان کی رخصتی سے نظام’’ کہنہ‘‘ بدلے گا؟؟؟

حافظ محمد عمران
پاکستان کرکٹ بورڈ میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر میاں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد پی سی بی کے چیئرمین رمیض راجہ کو گھر بھیجے جانے یا ان کے مستعفی ہو جانے کے امکانات موجود ہیں۔ مستعفی ہونے کے حوالے سے ڈاکٹر نسیم اشرف ذہن میں آتے ہیں کیونکہ جب صدر پرویز مشرف صدر نہ رہے تو اس وقت کے چیئرمین پی سی بی ڈاکٹر نسیم اشرف نے بھی فوری طور پر عہدہ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس وقت پاکستان کرکٹ کے حلقوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ حکومت میں تبدیلی سے  رمیز راجہ کو جانا چاہیے یا انہیں بحیثیت چیئرمین کام جاری رکھنا چاہئے۔ اس حوالے سے مختلف رائے پائی جاتی ہیں لیکن ہماری سیاسی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب کبھی حکومت تبدیل ہوتی ہے تو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بھی بدل دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ ایسا ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے بہرحال اب موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے دو چیزوں کا امکان ہے کہ اگر عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو پھر کیا رمیز راجہ مستعفی ہوتے ہیں یا پھر وہ نئی حکومت کے ساتھ کام جاری رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ رمیز راجہ کو صرف ایک وزیر اعظم نے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے راستہ ہموار کیا تھا بلکہ انہیں ان کے سابق کپتان نے یہ ذمہ داری سونپی تھی اور سابق کپتان کی حیثیت وزیر اعظم سے بڑھ کر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ رمیز راجہ کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ چیئرمین آتے جاتے رہتے ہیں چہروں میں تبدیلی کوئی نئی بات نہیں۔ حکومت بدلتی ہے یا نہیں بدلتی ہے کرکٹ بورڈ کا سربراہ کون ہوتا ہے شاید موجودہ دور میں یہ چیزیں اتنی اہمیت نہیں رکھتیں اس وقت سب سے زیادہ اہمیت ملکی کرکٹ کے مستقبل کی ہے کیونکہ 2018ء سے آج تک پاکستان میں ایک امپورٹڈ نظام کی وجہ سے کھیل ہزاروں کی بجائے درجنوں کھلاڑیوں تک محدود ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی خواہش کے مطابق احسان مانی اور وسیم خان نے محکمہ جاتی کرکٹ کو ختم کر کے پاکستان کے مقبول ترین کھیل پر خودکش حملہ کیا کھیل کے میدانوں کو تالے لگے ، کھلاڑی اور کوچز معمولی ملازمتوں پر مجبور ہوئے ، کرکٹرز کی تعداد میں واضح کمی سے نچلی سطح پر کھیل کی سرگرمیوں میں کمی آئی ، سب سے بڑھ کر یہ اس کھیل میں بھی معاشی مستقبل محفوظ نہ ہونے کا خدشہ ہر وقت ستانے لگا۔ اب چیئرمین کوئی بھی ہو سب سے بڑا مسئلہ ملکی کرکٹ کے اس نظام کی بحالی ہے جس میں دہائیوں تک پاکستان کرکٹ کی خدمت کی ، کرکٹ کھیلنے والوں کی زندگیاں بدل دیں۔ کھیل کے میدان آباد ہوئے اور پاکستان کو مسلسل بہترین کھلاڑی ملتے رہے۔مرحوم اے ایچ کاردار کی اس تعمیری سوچ کو سلام ہے جنہوں نے کئی دہائیاں قبل اس بہترین نظام کی داغ بیل ڈالی اور پھر محکمہ جاتی کرکٹ نے وہ عروج دیکھا کہ پاکستان کا ہر دوسرا کرکٹر بھلے اس کو قومی ٹیم میں کھیلنے کا موقع ملے یا پھر وہ فرسٹ کلاس کرکٹ تک ہی محدود رہے لیکن وہ محکمہ جاتی کرکٹ کے بارے میں ہمیشہ اچھے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں بھی پاکستان کے عظیم کھلاڑیوں نے ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے آواز بلند کی۔ سابق کپتان مصباح الحق ، محمد حفیظ اور اظہر علی تو اس نظام کی بحالی کی درخواست لے کر وزیر اعظم عمران خان کے پاس بھی گئی لیکن ان کی بات نہ مانی گئی۔ یہ ناکام نظام تو اپنی جگہ لیکن اس سے بھی بڑی تباہی احسان مانی اور وسیم خان نے نچلی سطح کی کرکٹ کو بند کر کے کی۔ یہ دونوں عہدیدار تو اب پاکستان میں نہیں ہیں لیکن ان کے خودکش حملے کے اثرات پاکستان بھر میں نمایاں ہیں۔ برسوں جن کھیل کے میدانوں پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے کروڑوں روپے خرچ کیے میدانوں کی دیکھ بھال کرنے والے سٹاف پر بھاری سرمایہ اور وقت خرچ کیا انہوں نے بیک جنبش قلم برسوں کی محنت کو تباہ و برباد کر دیا۔ اب پاکستان بھر میں کرکٹ کھیلنے والوں کرکٹ کے منتظمین اور ملکی کرکٹ کی ضروریات کو سمجھنے والوں کے لیے سب سے بڑی امید محکمہ جاتی کرکٹ کی بحالی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اگر رمیز راجہ حکومت میں تبدیلی کے بعد بھی کرکٹ بورڈ میں رہتے ہیں تو وہ محکمہ جاتی کرکٹ کو بحال کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے کیونکہ یہ فیصلہ کسی وزیراعظم نہیں بلکہ راجہ صاحب کے سابق کپتان نے کیا تھا۔ رمیز راجہ کسی وزیر اعظم کا فیصلہ تو بدل سکتے ہیں لیکن سابق کپتان کا فیصلہ بدلنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ 
کرکٹ کے حلقوں میں رمیز راجہ کے جانے اور کسی نئے آنے والے کے بارے میں بہت بات ہو رہی ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اگر عمران خان وزیر اعظم نہیں رہتے اور رمیز راجہ بھی چلے جاتے ہیں تو پھر کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نجم عزیز سیٹھی اس عہدہ کے مضبوط امیدوار ہیں۔ نجم سیٹھی نے اپنے دور میں پاکستان سپر لیگ کا آغاز کیا اور اسے مرحلہ وار پاکستان لانے کے لیے کام کیا ان کے دور میں ہی ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا سفر شروع ہوا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی مکمل بحالی ہو چکی ہے۔ آسٹریلیا کا حالیہ دورہ اس سلسلے کی سب سے بڑی مثال ہے۔ نجم سیٹھی اگر آتے ہیں تو اُن کے لیے بھی سب سے بڑا مسئلہ محکمہ جاتی کرکٹ کی بحالی ہی ہو گا۔ یہ بات طے ہے کہ پاکستان کرکٹ کا بہتر مستقبل محکمہ جاتی اور علاقائی کرکٹ کی بحالی سے مشروط ہے۔ ان دونوں کے ساتھ ساتھ سب سے اہم انصاف کی فراہمی ہے۔ اگر میرٹ پر فیصلے کیے گئے تو گزشتہ چند برسوں میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے بہت زیادہ محنت لگن ، دلجمعی اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے اور جو بھی شخص اس کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے وہ حقیقی معنوں میں قوم کا خدمتگار ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن