دیکھ انصاف کی دیوی بھی چرالی اُس نے

کیا معلوم عمران خان جانتے ہیں یا نہیں کہ ہندوستان کی تاریخ میں دو ہی حکمران ایسے گزرے جنہوں نے پورے برصغیر پر حکومت کی، ایک علائوالدین خلجی اور دوسرا جلال الدین اکبر۔دونوں ’’اَن پڑھ‘‘ تھے، اَن پڑھ بھی ایسے کہ نام تک لکھنا نہیں آتا تھالیکن دونوں اتنا ضرور جانتے تھے کہ کاروبارِ مملکت چلانے کے لئے ایک بہترین ٹیم تشکیل دینا ضروری ہوتا ہے۔ اکبرکے’’نو رتنوں‘‘ سے کون واقف نہیں؟ابو فضل ابنِ مبارک وزیرِ اعظم، راجہ ٹوڈر مل وزیرِ خزانہ،عبدلرحیم خانِ خانہ وزیرِ دفاع،راجہ بیر بل وزیرِ خارجہ،ملا دوپیازہ وزیرِ داخلہ،فیضی وزیرِ تعلیم،فقیر عزی الدین وزیر مذہبی امور،تان سین وزیرِ ثقافت،اور راجہ مان سنگھ چیف آف دی آرمی سٹاف۔جبکہ خلجی کے ’’نورتنوں‘‘کی تعداد چار تھی لیکن اُس نے ہندوستان پر کیونکہ ’’مارشل لا‘‘لگا رکھا تھا سوکور کمانڈر ہی مشیرانِ خاص بھی تھے؛ اُولگ خان، ظفر خان، نصرت خان، اور الَپ خان۔اکبر اور خلجی نے کِیا صرف یہ کہ ٹیم کے انتخاب میں میرٹ اور صرف میرٹ کو مدِ نظر رکھا، باقی کام خود بخود ہوتے چلے گئے۔ خان صاحب بھی ایسا کرتے تو اس بات سے کچھ فرق نہ پڑتا کہ وہ ’’پڑھے لکھے‘‘ ہیں یا نہیں؟پڑھے لکھے سے یاد آیا کہ مشہور انگریزی کہاوت ’’مَین اِز نَون بائے دی کمپنی ہی کِیپس‘‘کے مصداق خان صاحب کی ریاستِ مدینہ کے بنیادی ستون تک تبدیل ہو چکے ہیں۔ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اپنے آخری خطاب میں ان ستونوں کے نام ’’ایمان، انسانیت اور خودداری‘‘بتا رہے تھے جو پہلے قانون، میرٹ اور احتساب ہوا کرتے تھے۔’’ایمان اور انسانیت‘‘ کے تاریخ جغرافیے سے تو قوم پہلے ہی واقف تھی لیکن ’’خودداری‘‘کہاں سے آئی اس کی خبر کسی کو نہیں تھی، سو خان صاحب نے خود ہی بتا دیا کہ انہیں جس بین الاقوامی سازش کے تحت ہٹایا جا رہا ہے اس کا مقصد پاکستان سے اس کی خودداری چھیننا ہے جس کا منہ بولتاثبوت شہباز شریف کا یہ جملہ ہے کہ ہم بھکاری ہیں، ہم غلام ہیں۔اول تو شہباز شریف نے یہ کہا ہی نہیں، انہوں نے توکہا تھا کہ ’’بیگرز آر ناٹ چوزرز‘‘جس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ بھیک مانگنے والوں کو جو بھیک بھی ملے لینی پڑتی ہے۔ بالفرضِ محال عمران خان کی غلط بیانی کو سچ مان بھی لیا جائے توبھی اس بات کی گواہی اُن سے بہتر کون دے سکتا ہے کہ میاں صاحب نے جو کہا غلط نہیں کہا؟کیا ’’آئی ایم ایف‘‘یعنی امریکہ سے فقط ایک ارب امریکی ڈالر کی بھیک لینے کے لئے خان صاحب کی اپنی حکومت نے سٹیٹ بینک پر اپنے اختیار کو گروی نہیں رکھا؟
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کوئی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتاتونیا پاکستان اس وقت تک کیسے بن سکتا ہے جب تک خان صاحب یہ نہ مان لیں کہ اپنی وزارتِ عظمی کے دوران جس راستے پر چلتے رہے وہ نئے پاکستان کی طرف جاتا ہی نہیں؟بائی دی وے، قرآنِ کریم کی رو سے خودداری کابنیادی مطلب بھی تویہی ہوتا ہے؟قصہ ء آدم و ابلیس سے کون واقف نہیں؟ ابلیس نے غلطی تسلیم نہیں کی اور شیطان بن گیا جبکہ آدم نے غلطی تسلیم کی اور انسان ہونے کا ثبوت دیا۔ لیکن ہم خدا کی آخری کتاب کا یہ بنیادی سبق بھی نہیںسیکھ سکے کہ غلطی تسلیم کرنا انسانیت اور غلطی تسلیم نہ کرنا شیطایت ہوتی ہے؟
خان صاحب کے عدم اعتماد پر چند اشعار ہوئے جنہیں وہ سمجھیں نہ سمجھیں لیکن تاریخ ضرور سمجھے گی ، یہ اشعار خان صاحب ہی کے نام کرتا ہوںکہ 
آخرِکار ہمیں چاہے خدا اپنا ملا
ہم ہی ہم کو نہ ملے تو ہمیں کیا اپنا ملا
کونسا کام بھلا ہوتا ہے تعویزوں سے
کب کسے قدموں میں محبوب پڑا اپنا ملا
دیکھ انصاف کی دیوی بھی چُرا لی اُس نے
چور کوئی تھا مگر ہاتھ کٹا اپنا ملا
ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹنا پڑتا ہے ہمیں
اپنے کرموں سے تجھے روزِجزا اپنا ملا
کوئی ارمان ہے باقی نہ کوئی چنگاری
صرف دل ہی نہیں چولہا بھی بجھا اپنا ملا
دل تو آیا نہیں لینے تجھے دروازے پر
دل کا دروازہ تجھے چاہے کھلا اپنا ملا
خان صاحب کو چاہیے کہ اپنی غلطیاں تسلیم کریں، ان غلطیوں سے سبق سیکھیں، اور پھر اس سبق کی روشنی میں اپنی اور اپنی جماعت کی تنظیم سازی از سرِ نو کریں بصورتِ دیگرجو ہوسکتا ہے اس کا ٹریلر توباپ کو وزیراعظم اور بیٹے کو وزیرِ اعلی پنجاب بنائے جانے کے عزم سے بخوبی کیا جا سکتا ہے؟ اصل اندیشہ تو تھا ہی یہی کہ کہیں تحریکِ انصاف کی حکومت ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے دل سے قانون اور میرٹ کا بچاکچھا احترام اور احتساب کا رہا سہا خوف بھی ختم نہ کر دے ، تو کیا ایسا ہی نہیں ہو رہا؟ یقین نہیں آتا کہ کسی ملک کی سیاست اتنی ننگی اور گلی سڑی بھی ہو سکتی ہے؟عمران خان کو چاہیے تو یہ تھا کہ دوسروںکو اپنے جیسا بنائیں لیکن کیا وہ خود دوسروں جیسے نہیں بنتے جا رہے؟حالات و واقعات نے انہیں سدھرنے کابڑا اچھا موقع خودبخود مہیا کر دیا ہے ورنہ وزیرِ اعظم کی حیثیت سے ان کی کارکردگی اتنی ناقص رہی کہ پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں تو کون نہیں جانتا کہ اگلے الیکشن میں ان کا صفایا ہی ہو جائے؟

ای پیپر دی نیشن