بدلتی سیاست اور عوام کی صحت

 صحت دنیا کی سب سے بڑی نعمت اوردولت ہے ۔کسی بھی انسان کواچھی صحت کے بغیر کوئی خوشی حاصل نہیں ہوسکتی۔دنیا بھر میںکورونا کی وباء پھیلنے کے بعد صحت کی اہمیت کا اندازہ سب کو بخوبی ہوچکا ہے کہ انسان کے پاس سب سے بڑی دولت صحت ہے اورصحت کے بغیر زندگی کو رواں دواں رکھنا ناممکن ہے اگر ایک انسان کروڑوں،اربوں کا مالک ہو اور اس کے پاس اچھی صحت نہیں تو وہ دولت بھی اس کے کسی کام کی نہیں ہے ۔ صحت کے متعلق اکثر لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ شائد زیادہ کھانا صحت مندی ہے یا صحت مند نظر آنا صحت کی علامت ہے۔صحت جسے دوسرے لفظوں میں تندرستی بھی کہا جاتا ہے ،دو الفاظ’’تن‘‘ اور’’درستی‘‘ کا مرکب ہے جس سے مراد انسانی جسم کی وہ کیفیات ہیں جو معمول کے مطابق ہوں یعنی ذہنی اور جسمانی تندرستی۔جسمانی تندرستی سے مراد ظاہری اور پوشیدہ تندرستی ہے،بہت سے ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو ظاہری طور پر صحت مند نظر آتے ہیں لیکن اندرونی طور پر وہ بہت بیمار اور لاغرہوتے ہیں ،انھیں طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں جو دوسروں کونظر نہیں آتیں۔اگر جائزہ لیا جائے توپاکستان سمیت دیگر ترقی پذیرممالک میں صحت مندزندگی گذارنے والے افراد کی شرح بہت کم ہے جس کی بنیادی وجوہات مہنگائی،غربت،گھریلو یا معاشرتی منفی ماحول ہیں بلکہ آج کل جس طرح سیاسی ماحول میں بے یقینی اور بحران کی بدلتی کیفیات بڑھتی جارہی تھیں اس سے عام آدمی کی صحت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق سیاست کی غیر یقینی صورتحال کے باعث بہت سے افراد ڈپریشن، ذیابیطس،بلڈپریشراورد ل کے امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔اسی لئے کہتے ہیں کہ صرف اچھا کھانا پینا یا اچھا پہننا ہی صحت مند زندگی کا نام نہیں بلکہ اچھی صحت کا دارومدارمثبت ذہن، مثبت شخصیت ، صحت مند طرز زندگی اورمثبت وتعمیری معاشرے پربھی منحصر ہوتی ہے۔اگر ہمارا ذہن،ہماری شخصیت اور طرز زندگی مثبت نہیں ہوگا تو اچھی صحت کا حصول ناممکن ہے۔ جدید تحقیق میں اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ انسانی صحت کا تعلق صرف جسم اور دماغ سے ہی نہیں بلکہ ہمارے اردگرد کے ماحول سے بھی ہے۔ مشی گن یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق جسمانی صحت اور تندرستی کا تعلق ہمارے روزمرہ کے طرز زندگی اور سوچ سے ہوتا ہے جسے ہم بہتر بنا کر جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ دل اور دماغ کو بھی مختلف بیماریوں سے بچا سکتے ہیں۔اسی طرح برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق صحت مند معاشرے میں زندگی گزارنے والے افراد میں تشدد پسندی کا رجحان کم ہوجاتا ہے۔ صحت مند طرز زندگی دماغی کار کردگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختص کئے ہوئے مقاصد کو بھی حاصل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔سیاست سے دلچسپی رکھنا بری بات نہیں لیکن سیاست میں اس قدر کھوجانا کہ خود کو ڈپریشن،بلڈ پریشر یا کسی مہلک بیماری کا مریض بنالینا کہاں کی عقلمندی ہے۔اکثر دوست، رشتہ دار سیاست پر گفتگو کرتے کرتے اس لیول تک پہنچ جاتے ہیں کہ آپس میں لڑ پڑتے ہیں یا قطع کلامی کرلیتے ہیں بلکہ کئی جگہ جھگڑے شدت اختیار کرجاتے ہیں۔
موجودہ سیاسی ماحول میں ہر کسی کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ۔ملک کو سیاسی و معاشی بحران سے نکانے کے لئے سیاست دانوں کے علاوہ ہر شعبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو کوشش کرنا ہوگی ۔ سیاست میں بے جا بحث و تکرار سے بچیں،نیند پوری کریں،بسیار خوری سے بچیں‘ صاف ستھرے رہیں،ایکسر سائز،جاگنگ کریں اور صحت مند خوراک استعمال کریں اگر غور کریں توہمارا دین اسلام بھی ہمیں یہی کچھ سکھاتا ہے،اچھی صحت پانا چاہتے ہیں تو دین اسلام کی بتائی ہوئی باتوںپر ہی عمل کرلیں۔

ای پیپر دی نیشن