6 رکنی بنچ غیر قانونی ، متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین برطرف نہیں کرسکتے : جسٹس فائز 


اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) حافظ قرآن کو میڈیکل کے امتحان میں 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق از خود نوٹس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسی کا تفصیلی نوٹ جاری کر دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے حافظ قرآن اضافی کیس کے دوران اپنے فیصلے کیخلاف لارجر بنچ کی کارروائی پر بھی اعتراض کر دیا۔ گزشتہ روز جاری کئے گئے تفصیلی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھا ہے کہ ازخود نوٹس نمبر 4/2022 میں 29 مارچ کا حکم 4 اپریل کا نوٹ منسوخ نہیں کر سکتا، متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کر سکتے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی وفاقی حکومت کے ملازم ہیں، عشرت علی کو ڈیپوٹیشن پر بطور رجسٹرار سپریم کورٹ بھیجا گیا، عشرت علی کو3 اپریل کو وفاقی حکومت نے بذریعہ نوٹیفکیشن واپس بلا لیا، عشرت علی کو وفاقی حکومت نے فوری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ عشرت علی نے وفاقی حکومت کے حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا، چار اپریل کو عشرت علی نے خود کو غلط طور پر رجسٹرار ظاہر کیا۔ رجسٹرار نے 29 مارچ کے فیصلے پر غیر قانونی سرکلر جاری کیا، چیف جسٹس کو بھی غیرقانونی سرکلر کا خط لکھا لیکن کوئی جواب نہ ملا، سرکلر غیر آئینی ہونے کا ادراک ہونے پر ہی6 رکنی لارجر بنچ تشکیل دیا گیا۔ تفصیلی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین عدالتوں کو اختیار سماعت بھی دیتا ہے اور مقدمات کے فیصلوں کے لیے بااختیار بھی کرتا ہے، اگر غیر موجود اختیار سماعت استعمال کیا جائے تو اس سے آئین کے مطابق عمل کرنے کے حلف کی خلاف ورزی ہوتی ہے، آئین بنچ یا ججوں کو یہ اختیار سماعت نہیں دیتا کہ وہ سپریم کورٹ کے کسی حکم کے خلاف اپیل کا فیصلہ کرنے بیٹھ جائیں۔ مقدمہ نمبر 4 کی سماعت کےلئے لارجر بنچ کی تشکیل غلط تھی، لارجر بینچ کو آئینی عدالت کی حیثیت حاصل نہیں تھی، 4 اپریل 2023 ءکا سپریم کورٹ کا حکم نامہ نہیں کہلا سکتا، اس کا کوئی آئینی اور قانونی اثر نہیں ہے۔ قانونی طور پر یہ بات غلط ہو گی کہ اسے حکم نامہ کہا جائے، اس کو 4 اپریل کا نوٹ کہا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا عشرت علی نے4 اپریل کو اپنے دستخط سے لارجر بینچ بنانے اور سماعت2 بجے مقرر کرنے کی فہرست جاری کی، لسٹ جاری کرتے ہوئے کہا گیا یہ چیف جسٹس پاکستان کے حکم پر لارجر بنچ تشکیل دیا گیا ہے۔ 10 اپریل 1973 ءکو آئین کو قومی اسمبلی کے 200 میں سے 196 ارکان کی اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا، آئین کی منظوری کے خلاف ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا تھا، یہ دستاویز ہی ہے جس نے وفاق کو باہم جوڑے رکھا ہے، آئین کا استناد اور اس کی پائیداری کا انحصار جمہوری بنیادوں پر ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے تفصیلی نوٹ میں لکھا کہ فرض کریں سپریم کورٹ کسی قتل کا مقدمہ خود سننے کا فیصلہ کر لیتی ہے، پھر سپریم کورٹ اس ملزم کو سزا دے دیتی ہے یا بری کر دیتی ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے اس اقدام کا کوئی قانونی اثر نہیں ہو گا، نہ تو آئین نہ ہی قانون نے سپریم کورٹ کو فوجداری مقدمہ چلانے کا اختیار سماعت دیا ہے۔ یہ مقدمہ کوئی سیشن جج چلا سکتا ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں سے دو درجے نیچے ہے، فیملی کورٹ کا کوئی جج عائلی قانون کے متعلق امور کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ یہ اختیار سماعت سپریم کورٹ کو حاصل نہیں ہے۔ سماعت معمول کے مطابق ہوتی تو 4 ججز سوچتے ان کے سینئر کیا کر رہے ہیں، عدلیہ کا کام آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔ اختیارات سے تجاوز کیا جائے تو ججز کے حلف کی خلاف ورزی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف کوئی دوسرا بنچ اپیل کی سماعت نہیں کر سکتا۔

ای پیپر دی نیشن