بھارت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے کبھی ساتھ دینے والوں کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ شراکت داروں کو بیچ دوراہے چھوڑ کر نیا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس نے کبھی وعدے نہیں نبھائے بلکہ ہمیشہ ساتھ چلنے والوں کے لیے مسائل پیدا کیے ہیں۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر ہمسایہ ممالک کی طرف بھی دیکھیں تو یہ چیزیں بہت واضح نظر آتی ہیں کہ بھارت نے ناصرف ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی عادت کو بھی اپنا رکھا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے توسیع پسندانہ عزائم، نفرت اور تعصب کی پالیسیوں کی وجہ سے ناصرف خطے میں امن و امان کو شدید خطرات لاحق ہیں بلکہ اس کے ساتھ عالمی امن بھی خطرے میں ہے۔ مختلف عالمی معاملات میں بھی بھارت شراکت داروں کو دھوکہ دینے سے باز نہیں آتا ان حالات کو دیکھتے ہوئے اور بھارت کے ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کو بھی نریندرا مودی کی حکومت اور بھارت کے ساتھ تعلقات اور معاملات کو آگے بڑھانے سے پہلے ہمیشہ کچھ ضرور سوچنا چاہیے۔ کب تک بھارت سے دھوکہ کھاتے رہیں گے۔ عالمی اداروں کو بھی بھارتی حکمت عملی، انتشار اور تعصب کی پالیسیوں پر ایکشن لینا ہو گا۔ بالخصوص امریکہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت کی دوغلی پالیسیوں کو سمجھے اور خطے میں طاقت کے توازن اور انسانی حقوق کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے
یوکرین کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے روس اور مغرب کے درمیان براہ راست تصادم ہوا ہے اور معاملات ایک خاص نقطہ سے آگے بڑھ چکے ہیں جہاں دوسری ریاستوں کو فریق بنانا پڑتا ہے۔ البتہ بھارت جس کی امریکہ کے ساتھ قریبی سٹریٹجک شراکت داری ہے اس نے امریکہ کے ساتھ شراکت داری کے باوجود مغرب کا ساتھ نہیں دیا۔ گوکہ امریکہ کی طرف سے بھارت کو قائل کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت اور بھارت کو روسی تیل کی خریداری روکنا بات چیت کا حصہ رہا لیکن بھارت نے یوکرین کے بارے میں غیر جانبدارانہ رویہ اپنایا ہے، دوسری طرف، اس نے روسی تیل کی خریداری جاری رکھی ہے جس سے امریکہ کو مایوسی ہوئی ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کا یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک ناقابل اعتماد ساتھی ہے۔
جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکہ کے ہم خیال یا شراکت دار مغربی ممالک نے روس پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ تاہم ایک مشکل یہ تھی کہ زیادہ تر یورپی ممالک کا انحصار روس کے تیل اور گیس پر ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کے دوسرے ہفتے تک امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ "ہم روسی تیل اور گیس اور توانائی کی تمام درآمدات پر پابندی لگا رہے ہیں،" "اس کا مطلب ہے کہ روسی تیل اب امریکی بندرگاہوں پر قابل قبول نہیں رہے گا اور امریکی عوام پیوٹن کی جنگی مشین کو ایک اور زبردست دھچکا لگائیں گے۔" اسی طرح واشنگٹن نے یورپی یونین اور دیگر یورپی اتحادیوں کو روس کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لیے پابندیوں کے علاوہ روسی تیل کی درآمدات کو کم کرنے کے لیے قائل کیا۔ گذشتہ برس مئی کے اوائل میں یورپی یونین نے روسی تیل اور گیس پر پابندی کی تجویز پیش کی۔ یورپی کمیشن نے 2030 تک روسی تیل اور گیس پر انحصار کم کرنے کی حکمت عملی وضع کی ہے۔ وہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر کام کر رہے ہیں جو ان کی 45 فیصد توانائی کی ضروریات کو پورا کریں گے۔ اس لیے یورپ آنے والے سالوں میں روس کے ساتھ مکمل طور پر اپنے تعلقات منقطع کرنے کے لیے متبادل ذرائع پر کام کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ روس پر دباو¿ ڈالنے کے لیے امریکا نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی۔ اگرچہ قرارداد منظور کی گئی تھی، لیکن کچھ ممالک ایسے تھے جنہوں نے ووٹنگ سے پرہیز کیا۔ ان میں بھارت اور پاکستان بھی شامل تھے۔ اگرچہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات زیادہ قریب نہیں ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان کسی بھی فریق کو لینے سے دور رہنا چاہتا ہے۔ تاہم، بھارت امریکہ کا سٹریٹجک پارٹنر ہے اور مو¿خر الذکر نے سابق سے افغانستان پر روسی حملے کی مذمت کرنے کو کہا تھا جو بھارت نے نہیں کیا۔
اسی طرح روس سے تیل کی درآمد پر امریکہ نے بھارت کو بار بار خبردار کیا ہے تاہم بھارت نے روس سے اپنی درآمدات کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ہندوستان روس سے یومیہ 600000 بیرل تیل درآمد کرتا ہے جس سے روسی خزانے میں کافی رقم کا اضافہ ہوتا ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ کے سرکردہ بین الاقوامی توانائی مشیر نے ہندوستان کو خبردار کیا کہ وہ روس سے تیل کی رعایتی درآمد میں اضافہ نہ کرے جو ان کے لیے رکاوٹیں پیدا کر سکتا ہے۔ بھارت نے اب بھی روسی تیل کی درآمد جاری رکھی ہوئی ہے جس کی وجہ سے مغرب میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ پابندیوں اور یورپ کو سپلائی میں کمی کے باوجود روس کی تیل اور گیس کی برآمدات مستحکم ہیں۔ سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر (CREA) نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ روس نے 100 دنوں میں تیل اور گیس کی برآمدات سے 100 بلین ڈالر کمائے ہیں جس سے مغرب حیران رہ گیا ہے کیونکہ پابندیوں کے باوجود روس اپنا تیل اور گیس برآمد کرنے میں کامیاب رہا۔ .
جب روس نے اپنا تیل رعایتی قیمت پر پیش کیا تو بھارت نے امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہونے کے باوجود اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔ گذشتہ برس مارچ میں ہندوستان کو روسی تیل کی درآمد تین ملین بیرل تھی یہ اپریل میں بڑھ کر 7.2 ملین بیرل ہو گئی۔ تاہم، مئی میں، یہ 24 ملین بیرل تک پہنچ گیا، جو مغرب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ بھارت نے روسی خزانے میں اپنا پیسہ ڈالا ہے جو یوکرین میں اس کی جنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ آنے والے مہینوں میں ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان روس سے تیل کی درآمدات میں مزید اضافہ کرے گا۔ اس طرح، یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ہندوستان نے اپنے اسٹریٹجک پارٹنر ہونے کے باوجود امریکہ کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے امریکی مفادات کی پرواہ نہیں کی۔ اسی طرح یوکرین جنگ کے حوالے سے ہندوستان کا نقطہ نظریہ ظاہر کرتا ہے کہ ہندوستان امریکہ کا ناقابل بھروسہ ساتھی ہے ان تلخ حقائق کے باوجود امریکہ مختلف اہم معاملات میں بھارتی حمایت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حمایت کا مقصد نریندرا مودی کے توسیع پسندانہ عزائم کو فروغ دینا ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود بھارت کو کھلی چھوٹ دینا بھی اس کی طاقت میں اضافے کے کام کرنے کے مترادف ہے۔ خالصتان کی تحریک سب کے سامنے ہے کیا اس کے باوجود بھی امریکہ نے بھارت سے دھوکے کھانے کا سلسلہ جاری رکھنا ہے۔
امریکہ بھارت پر اعتماد سے قبل کچھ سوچے!!!!!
Apr 09, 2023