عکس خیال… محمد حفیظ
mha_mughal13@hotmail.com
زندگی کے کھیل کی لکیریں بھی ہاتھوں کی لکیروں کیطرح گردشِ دوراں کی زد میں آ کر وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ہیت تبدیل کرتی رہتی ہیں ۔ بسا اوقات تو گھمبیر اور حالات کی سنگینیوں کے باعث یہ لکیریں مٹ جایا کرتی ہیں جو اس بات کی متقاضی ہیں کہ حالات بھی اپنی (ایک انسان کی بڑھتی عمر کی طرح) اپنی عمر کے انتہائی حصے کی جانب تیزی سے گامزن ہیں جو کسی وقت بھی اختتام پزیر ہو سکتی ہیں۔ لمحہ موجود میں جس طرح خط و کتابت اہمیت کھو چکی ہے اور وقت کی تیزی اس امر کا مظہر ہے ترسیل کے ذرائع بھی وہ استعمال کیے جائیں جس سے وقت کی بچت ممکن ہو سکے۔ اسی تناظر میں آج کے دور میں کتب کی اہمیت بھی جہاں ہمارے نوجوانوں میں کافی حد تک کم ہو چکی ہے وہاں ہم بالوں کی سفیدی میں چاندی والے حضرات بھی ان کے وجود سے تقریبا اکتا چکے ہیں۔ جس طرح آجکے دور میں رشتے داری بھی سوشل میڈیا کی محتاج ہو کر فاصلوں تک محدود و چکی ہے اسی طرح کتب بھی بجائے ہمارے ہاتھوں کی زینت بننے کے یہ بے چاری شیشے کی الماریوں میں پڑی پڑی سانسیں گھٹ کر مر جاتی ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا جب تک ان سے گلو خلاصی ہمارا مقصود نہ ہو وہ چاہے ان کو کسی مہمان کو بطور گفٹ کرنے سے حاصل ہو یا پھر ردی کی شکل میں ٹین ڈبے والے کو دے کر پتیسے سے منہ کا ذائقہ بدلنے کی صورت لیکن ایک بات جو خاص ہے وہ یہ کہ ایسی صورت میں مہمان سے اس کی رضا مندی یا پسند نا پسند کا پوچھنا بھی ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے چونکہ ایسی صورت میں الماری کے ان مردوں سے جان بخشی ایک مشکل فعل بن جاتا ہے لہذا مہمان کی رضامندی غیر ضروری تصور کی جاتی ہے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے میں اپنے ایک محسن کے گھر ان کی والدہ ماجدہ کی روح کے ایصالِ ثواب کی غرض سے جب گیا تو یقین جانیں بغیر کسی توقف کے، بغیر لمحہ ضائع کیے انہوں نے (میری منشا کو جانے بغیر ہی) اس کلام کے ساتھ کہ آپ کتب پسند کرتے ہیں تو کیوں نہ آپ کو کچھ کتب بطورتحفہ پیش کی جائیں۔ چارو و ناچار مجھ ایسا شخص جسے اپنے پڑھے لکھے ہونا کا زعم ہوتا ہے اور کچھ کچھ پڑھنے کا شوق بھی ہو تو وہ اتنے خلوص و پیار کو ٹھکرانے کی جرات نہیں کر سکتا۔ چناچہ میری ہاں کے جواب میں انہوں نے کہا ٹھیک میں آپ کو کچھ کتب گفٹ کرتا ہوں ۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ کچھ دیر ادھر ادھر کی بات چیت ہوتی پھر موصوف اپنا غصہ مجھ پر یا پھر اپنی ان کتب پر نکالتے لیکن ان سے اتنا صبر بھی نہ ہوا اورانہوں نے دھڑا دھڑ انگلش کی کتب کا میرے سامنے جب انبار لگانا شروع کیا تو مجھے کسی کا وہ مشہورِ زمانہ مضمون یاد آ گیا جو اس نے لکھا تھا "مجھے میرے دوستوں سے بچاو" اور میں دل ہی دل میں کہنے لگا شاہ صاحب مجھے اپنی کتب سے بچائیں۔
چناچہ جب میں نے ایک بار پھر اپنی کتب پسندی کا اظہار کیا تو یقین جانیں اللہ کی پناہ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اگر میں نے کہا کہ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے جو میں انگلش کی اتنی ضخیم کتب کو دے سکوں گا یا اگر یہ کہا کہ نہیں مجھے کتب کا شوق نہیں ہے تو دونوں صورت میں میری علمیت کا پردہ فوری ہی چاک ہو کے رہ جائے گا۔ اب یعنی انکار اور اقرار دونوں صورت میرے گلے پڑتی تھیں۔ جب انہوں نے درجنوں کیحساب سے کتب نکالنی شروع کیں تو میرا منہ کھلیکا کھلا رہ گیا کہ میں اتنی کتب کا کیا کروں گا وہ بھی انگلینڈ جیسے ملک میں جہاں مجھ ایسے شخص کو مزدوری کے لالے پڑے رہتے ہیں (حالانکہ انکو معلوم بھی ہے میرے پاس اتنا وقت نہیں ہیکہ اتنی ساری کتب اور وہ بھی جن میں دلچسپی نہ ہو پڑھ سکوں) دوسرا یہاں کے گھر اتنے کشادہ نہیں ہوتے جہاں کتب بینی کا شوق وسیع پیمانے پر پورا کیا جا سکے!!
بہرکیف کچھ بھی تھا محترم شاہ صاحب نے مجھ پر یا پھر اپنی ان کتب پر جو نجانے کب سے انکی الماریوں میں بند ان کا منہ چڑا رہی تھیں فوری میرے حوالے کر دیں وہ بھی ان الفاظ کے ساتھ کہ ابھی میرے پاس اور بھی ہیں وہ بھی آپکو گفٹ کروں گا۔ اب آپ لوگ ہی مجھے بتائیں کہ میں اپنے اس محسن کا شکریہ کس طرح ادا کروں جو انہوں نے علم کا ایک خزانہ میرے حوالے کر کے خود کو ایسے محسوس کر رہے ہیں جیسے دنیا کے امور نمٹا دیئے گئے ہوں جیسے جیل کی لمبی قید سے یک دم رہائی کا سندیسہ مل گیا ہو جیسے ملین کی لاٹری لگ گئی ہو۔ لطف کی بات یہ ہے جب میں یہ مضمون (اپنے موبائل پر) لکھ رہا ہوں تو ان کا پیغام وصول ہوا کہ جناب کتب پسند آئیں اور ساتھ یہ بھی لکھا گیا کہ آپ کے لئے کچھ مزید کتب بھی نکال کے رکھی ہی ۔ لہذا اگر آپ قارئین مجھ پر کوئی احسان کر سکتے ہیں تو یہ کریں کہ یا تو ان موصوف کو جناب علم کا کچھ خزانہ آپ اپنے پاس بھی رکھیں یا پھر آپ لوگ ہی "مجھے میری کتب سے بچائیں" کیونکہ اس میں تحفے کے بوجھ تلے آ کر مرنا نہیں چاہتا جبکہ میں ابھی کچھ عرصہ اور جینا چاہتا ہوں۔
مجھے میری کتابوں سے بچائیں
Apr 09, 2023