ازقلم : رقیہ غزل
کالم : حسب ِ موقع
بھارتی بزنس ٹائیکون’’ وجے مالیا‘‘ کے نام سے بین الاقوامی امور سے باخبر رہنے والے واقف ہیں کہ وہ بھارتی پارلیمان کا ممبر اور مشہور بزنس مین تھا۔ اس کی خاص زیادہ وجہ شہرت اس کا شاہانہ انداز زندگی اورحسینا?ں کی صحبت تھی لیکن وہ جہاں رنگین مزاجی میں بے مثال تھا وہاں مالیا مذہب سے بھی قریب مانا جاتا تھا کیونکہ ایسے لوگوں نے مذہبی دکھاوا تو رکھا ہی ہوتا ہے۔ایک وقت تھا کہ جب وجے مالیا انڈیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک تھا کہ اپنے باپ کی وفات کے بعد 28سال کی عمر میں ہی وجے مالیا یونائیٹڈ بیوریریز کا چئیرمین بن گیا جو کہ شراب کی کمپنی تھی جہاں نشہ اور پیسہ ہو وہاں شباب خود بخود کھنچا چلا آتا ہے بایں وجہ اسے ماڈلز اور فلمی اداکارائیں گھیرے رہتی تھیں یہی وجہ ہے کہ اسے کنگ آف دی گڈ ٹائمز اور پلے بوائے آف دی ایسٹ کہا جاتا تھا اس کے پاس اپنا ذاتی جیٹ ، بہت بڑا بحری جہاز، اور بے شمار گاڑیاں اور دو سوگھوڑوں کا فارم بھی تھا ، بینک اکا?نٹ کھربوں سے بھرے پڑے تھے اور اسکا بزنس پچاس سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا تھا۔انڈیا کی فارمولا ون ریسنگ ٹیم بھی اسی کی ملکیت تھی۔ اس کی دولت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ جب ٹیپو سلطان کی تلوار کو لندن میں بیچنے کے لیے پیش کیا گیاتو اس تلوار کو وجے مالیا نے ہی پونے دو کروڑ روپے میں خریدا تھا۔علاوہ ازیں مہاتما گاندھی کا سامان جب لند ن میں نیلام کیا گیا تو قریباً13کروڑ میں اس نے خرید لیا تھا۔وجے مالیا یو بی (یونائیٹڈ بریوریز)گروپ کا مالک تھا جو کہ دنیا کی دوسری بڑی شراب کمپنی ہے مزید بھی کئی بڑی کمپنیوں کا مالک تھااور جائیدادیں دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکی تھیں۔1996کے کرکٹ ورلڈ کپ میںویسٹ انڈیز کی ٹیم کو بھی وجے مالیا کی کمپنی نے سپانسر کیا تھا۔ جس کے دن رات عیش و عشرت میں گزرتے تھے ایک غلط فیصلے نے اسے تباہ و بر باد کر دیا اور وہ غلط فیصلہ یہ تھا کہ :
وجے مالیا نے کنگ فشر ائیر لائین کمپنی 2005 میں شروع کی جوکہ انڈیا کی نمبر ون ڈومیسٹک ائیر لائین بن گئی۔طمع اور ہوس زر انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی کہ جوں جوں دولت حاصل ہوتی ہے اتنی ہی ہوس بڑھتی جاتی ہے اور اس کے لیے حلال و حرام ، جائز و ناجائز اورنتائج کی بھی پرواہ نہیں رہتی تو وجے مالیا نے سوچا کہ ائیر فشر ایک انٹر نیشنل ائیر لائین بن جائے۔ لیکن قانون کے مطابق وہ پانچ سال سے پہلے انٹر نیشنل فلائٹس شروع نہیں کر سکتا تھا۔ وجے مالیا نے صبر کرنے کی بجائے ائیر ڈکن نامی فلائٹ خریدنے کا فیصلہ کر لیا جوکہ پہلے سے انٹرنیشنل فلائٹ اڑا رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی کنگ فشر کو بھی انٹرنیشنل فلائٹ اڑانے کا پرمٹ مل گیا۔ایک سال کے اندر ہی کنگ فشر انڈیا کی بہت بڑی پرائیویٹ کمپنی بن گئی اور کنگ فشر کا مارکیٹ شئیر 23 فیصد ہو گیا کہ ایک کروڑ سے بھی زائد لوگ کنگ فشر پر سفر کرنے لگے ایسے میں وجے مالیا جو پہلے ہی کھرب پتی تھا اسکی ہوس اور لالچ مزیدبڑھتا جا رہا تھا دوسری طرف اس کی عیاشیوں کی داستانیں بھی عروج پر تھیں چونکہ ہر عروج کے تعاقب میں زوال ہوتا ہے۔جب خود پرستی اور ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کانشہ سر چڑھ کر بولنے لگے تو زوال گھیرلیتاہے۔ 2010 میں حیرت انگیز طور پر کنگ فشر قرضوں میں ڈوبنے لگی۔کہنے والے کنگ فشر کی تباہی کیوجہ فیول کی بڑھتی قیمتیں ، سٹاف کو دوسری ائیر لائینز سے زیادہ تنخواہیں دینا مگر ان کا اس تندہی سے کام نہ کرنا اور ڈیکن نامی ائیر لائین کو خریدناجو کہ پہلے ہی خسارے میں چل رہی تھی اور سب سے بڑی وجہ اپنے اکلوتے بیٹے کو اٹھارہ سال کی عمر میں کنگ فشر کا چئیر مین بنا دینا قرار دیتے ہیں چونکہ مالیا کا بیٹا بھی شراب و شباب کا رسیا تھا اور بزنس کے اتار چڑھا? سے لاعلم تھاسو کنگ فشر آہستہ آہستہ ڈوبتی چلے گی حتی کہ سٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہوگئی بایں وجہ ملازمین سڑکوں پر نکل آئے اور جگہ جگہ وجے مالیا کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔
وہ وجے مالیا جس نے کبھی ہار اور ذلت نہیں دیکھی تھی وہ انا کا مسئلہ بنا بیٹھا اور بنک سے قرضے لے کر کنگ فشر چلانے کی کوشش کرنے لگامگر تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں اور 2012 میں کنگ فشر کو بند کر دیا گیا اور اس کا لائسنس منسوخ ہو گیا۔ کنگ فشر پر 9ہزار کروڑ کا قرضہ چڑھ چکا تھا۔اپنی کمپنی کو بچانے کے لیے وجے مالیا نے 17 بینکوں سے قرضہ لیا تھا۔غریب ملازمین احتجاج کر کے تھک ہار کر بیٹھ گئے ،بنک خاموش ہوگئے اورادارے پیچھے لگ گئے۔بنک اکا?نٹ منجمد اورجائیدادیں ضبط ہونے لگیں تو وجے مالیا یو کے میں ر وپوش ہو گیا۔وجے مالیا کو بھاگنے کا موقع کس نے دیا تاحال یہ سوال ہے۔۔۔تاہم وجے مالیا نے الٹا بھارت سرکار کو اس تباہی کی وجہ قرار دے دیاکہ بھارتی غلط قوانین کی وجہ سے کنگ فشر خسارے میں گئی ہے لہذا حکومت خسارہ پورا کرے جس کے بعد وجے مالیا کو ’’اشتہاری ‘‘قرار دے دیا گیا، مالیا انڈیا سے کٹ گیا، لوگوں میں اس کے خلاف نفرت پھیل گئی، اس کی جائیدادیں ضبط اور پسندیدہ بحری جہاز نیلام کر دیا گیا۔بد عنوانی اور دھوکہ دہی کے الزامات کی وجہ سے اسے پارلیمان سے بھی مستعفی ہو نا پڑا۔ مالیا کو دو مرتبہ گرفتار کر لیا گیا تھا مگر وہ ضمانت پر رہا ہوگیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق جتنے بھی منی لانڈرنگ مجرم انڈیا سے بھاگے انھیں لندن میں پناہ ملی کیونکہ وہاں ہیومن رائٹس کے قوانین سخت ہیں دوسرا ایسے مجرموں کیوجہ سے بینکوں میں بہت پیسہ آتا ہے جس سے مالی طور پر بہت فائدہ ہوتا ہے اس لیے منی لانڈرنگ کے مجرموں کے لیے لندن بہترین پناہ گاہ بنتی جا رہی ہے۔ المختصرآج بھی بھارت کو مالیا مطلوب ہے مگر وہ کہاں اور کیسے پکڑا جائے گا ،یہ کوئی نہیں جانتا،اس پر زمین تنگ ہو چکی ہے، اسے وہ آزادی اور عیاشی حاصل نہیں جس میں اس کے شب و روز غرقاں تھے کہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے والا وجے مالیا در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔سچ ہے دنیاوی عرش سے فرش تک آنے میں کتنی دیر لگتی ہے کہ ’’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ‘‘وطن عزیز کی سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا تو مالیا یاد آگیا۔دیکھ لیں۔۔ جوکل تک کسی نظریاتی کارکن کو ٹکٹ دینا تو درکنارا پنی میٹنگ میں بٹھانا پسند نہیں کر تے تھے وہ آج ان کے ساتھ افطار کرتے نظر آتے ہیں اور شب و روز اپنی نازیبا زبان کے استعمال ، عجلت اور جذبات میں کئے گئے فیصلوں پر ماتم کرتے ہیں۔دوسری طرف جنھوں نے اپنے تین سالہ دور اقتدار میں کبھی کسی کو انسان نہیں سمجھ کہ گردن کا سریا مشہور تھا وہ اسقدر بے بس ہیں کہ عوام میں نکلنا مشکل ہو چکا ہے اور الیکشن سے بھاگتے پھر رہے ہیں۔یہ خدائی قانون ہے جو لوگ خدا کو بھلا دیتے ہیں خدا انھیںبھول جاتا ہے۔ بلاشبہ جو آج زیر عتاب ہیں کہیں نہ کہیں ان کی زندگیاں گواہ ہیں کہ انھوں نے طاقت میں سب بھلا کر اپنی جیبیں بھریں اور حق داروں کا حق ان تک پہنچانے میں غافل رہے جبکہ دوسرے مجبوراً خاموش رہے بایں وجہ سزا پوری قوم پر تقسیم ہو چکی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے قوموں کے خیر و شر کا دارومدار خود ان کے اپنے اعمال پر رکھ دیا ہے۔جو قوم یہ کہتی ہے حالات اور قسمت نے ہمیں پیچھے کر دیا ہے درحقیقت اپنی نادانیوں اور غلط حکمت عملیوں کا بزدلانہ اظہار کرتی ہے۔قرآن کہتا ہے کہ جو جیسا گمان کرتا ہے اللہ اس کے گمان کے ساتھ ہے۔جب معاملات اور حالات بگاڑ کی انتہا کو پہنچ جائیں پھر حتمی طور پر ایک ہی آواز آتی ہے :’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت ‘‘کہ
آسماں اتنی بلندی پے جو اتراتا ہے
بھول جاتا ہے زمیں سے ہی نظر آتا ہے