اقلیتوں کا تحفظ

تحریر : محمد حمزہ عزیز 

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں کہ جب کسی مذہبی انتہا پسند نے کسی معصوم کو بلاوجہ موت کے گھاٹ اتار دیا ہو۔ پاکستان کے پچھتر 
سالوں میں ایسے  بے شمار کیس  سامنے آئے ہیں جب لوگوں نے کوئی بہانہ  کر بنا کر یا الزام لگا کر کسی بے قصور کی جان لی ہو لیکن کبھی ان خوفناک واقعات کی وجوہات پر غور نہیں کیا گیا۔ ایسے واقعے کے بعد صرف دو تین دن سوگ منایا جاتا ہے، اعلی حکام کی طرف سے ایک بیان  آتا ہے جس میں وہ ہمدردی اور تعزیت کرتے ہیں اور پھر سب پہلے جیسا ہو جاتا ہے۔ 
دیال سنگھ پشاور کے محلہ جوگن شاہ کے رہائشی تھے۔ وہ ہر روز اپنی پنساری کی دکان پر جاتے تھے اور پانچ بجے واپس آتے تھے۔ صرف دو ہزار روپے ماہانہ کرایے کی دکان  میں محنت کرکے  اپنا اور اپنے گھر والوں کا   پیٹ پالتے تھے۔ انہیں چند روز پہلے سہ پہر کے  قریب ساڑھے تین بجے دیر کالونی پشاور کے علاقے میں  سٹور کے اندر قتل کردیا گیا۔ سکھ کمیونٹی کے سماجی رہنما ڈاکٹر صاحب سنگھ نے میڈیا  سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے پہلے بھی سکھوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور یہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ ہے کیونکہ  دیال سنگھ کی کسی سے دشمنی نہیں تھی وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ پولیس کے مطابق جائے وقوع سے 30 بور پستول کی گولیوں کے خول اور دیگر اہم شواہد اکٹھا کرکے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے سکھ کمیونٹی کے 27 لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا جا چکا ہے اور یہ 28 واں واقعہ ہے۔ آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی  کہ عام آدمی کا صرف فرانزک رپورٹ وغیرہ کی باتوں سے  کیا لینا دینا ہے؟۔ اس بات کا عوام کو یا دیال سنگھ کے گھر والوں کو کیا فائدہ ہوگا کہ قتل 30 بور پستول سے ہوا ہے۔ ہمیں یہ بتانا چاہئے کہ  کے قاتل پکڑے گئے یا نہیں اور اگر نہیں تو پولیس کیا حکمت عملی اپنا رہی ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ آج تک ایسا کوئی  کیس سامنے نہیں آیا جہاں پولیس نے آگے بڑھ کر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کچھ کیا ہو۔  بابا گروپال نے میڈیا  کو بتایا کہ اس واقعہ کے بعد کمیونٹی میٹنگ ہوئی ہے جس میں سنگت نے کسی بھی قسم کا احتجاج نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس سے پہلے رنجیت اور کلجیت کے قتل کے بعد انہیں کسی قسم کا ریلیف ملنا تو دور الٹا احتجاج کی بدلے میں انتظامی افسران کی ناراضگی سمیت امتیازی سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ 
پشاور میں سکھ برادری مذہبی رواداری کی مثالیں قائم کر رہی ہے اور اس کے جواب میں لوگ ان کے بندے مار رہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے کی خبر ہے کہ پشاور کے علاقہ ڈبگری سمیت محلہ جوگن شاہ کے اطراف سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد افطار دسترخوانوں کا اہتمام کر رہے ہیں اور وہ نہ صرف روزہ داروں کے لیے افطاری کا انتظام کر رہے ہیں بلکہ خود بھی کھلے عام کھانے پینے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس سے زیادہ اخوت و بھائی چارے کا مظاہرہ کیا ہوگا؟ قائد اعظم نے 11 اگست 1947 ئ￿ کی تقریر میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے بڑے کم الفاظ میں ساری بات سمجھا دی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا ‘‘ آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔’’ اپنے دل پر ہاتھ کر اگر ہم خود سے پوچھیں کہ کیا واقعی اقلیتوں کو پاکستان میں ان کے حقوق ملتے ہیں تو باقائدہ درماندگی محسوس ہوگی۔ 
جس معاشرے میں اس طرح کے جرائم پیش آ رہے ہو اس نے کہاں ترقی حاصل کرنی ہے۔ نہ کسی کو پولیس کا خوف ہے نہ مقدمہ درج ہونے کا ڈر سب جو جی میں آتا کرتے ہیں۔کیونکہ سب کو یقین ہوچکا ہے اگر کوئی  کسی پر  توہین رسالت کا غلط الزام لگائے گا تو اپنی دشمنی بھی نکال لے گا اور بچ بھی جائے گا۔ اس قسم کے وحشیانہ واقعات  پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے تو پولیس کو سنجیدہ ہونا ہوگا۔ عوام کون ہوتی ہے جو خود فیصلہ کر کے کسی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دے ؟۔ سزا دینے کے لیے ہی تو عدلیہ اور پولیس کے ادارے بنا ہے۔ اس طرح کے ہر کیس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور پھر فیصلہ آنا چاہیے۔ ایک دفعہ اس نفرت انگیز جرائم میں ملوث افراد کو پھانسی دینی چاہیے۔ صرف ایک بار یہ مثال قائم ہوگئی تو باقی سب کے لیے  عبرت کا مقام ہوگا۔ پاکستان صرف مسلمانوں کا نہیں ہے، ہمارے جھنڈے پر اگر سبز رنگ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے تو سفید رنگ اقلیتوں کی کرتا ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں چاہیے ہم ایک دوسرے کے کام آئیں بھائی  چارے کی مثالیں قائم کریں۔ کامیابی حاصل کرنے کا صرف یہی راستہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن