وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اکتالیسواں (41) اجلاس وزیراعظم ہائوس میں ہوا۔ یہ اجلاس 2 جنوری 2023 ء کو پشاور پولیس لائنز میں دہشت گردی کے حملے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے تسلسل میں ہوا۔ کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ لہرکوتحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ نرم گوشہ اور عدم سوچ بچار پر مبنی پالیسی کا نتیجہ قرار دیا جو کہ عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے، جس کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بلا رکاوٹ واپس آنے کی ناصرف اجازت دی گئی بلکہ ٹی ٹی پی کے خطرناک دہشت گردوں کو اعتماد سازی کے نام پر جیلوں سے رہا بھی کردیا گیا۔ واپس آنیوالے ان خطرناک دہشت گردوں نے ملک کی سلامتی اور من کو متاثر کیا ۔ اجلاس میں قوم اور حکومت کے ساتھ مل کر ہمہ جہت جامع آپریشن شروع کرنے کی منظوری دی گئی جس کے ذریعے ایک نئے جذبے اور نئی عزم و ہمت کے ساتھ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کیا جائیگا۔
ٹی ٹی پی کی پاکستان کیخلاف دہشت گردانہ گرسرمیوں کو روکنے کیلئے حکومت اور ٹی ٹی پی کے مابین کئی بار جنگ بندی کے معاہدے طے پائے گئے‘ لیکن اس گروپ کی جانب سے ہمیشہ ان معاہدوں کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔ گزشتہ برس ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ کئے گئے جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کرتے ہوئے اپنے عسکریت پسندوں کو ملک بھر میں دہشت گردانہ حملے کرنے کا حکم دیا اور ان پر زور دیا گیا کہ جہاں بھی انہیں حملہ کرنے کا موقع ملے‘ اس سے پیچھے نہ ہٹیں۔ پاکستان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ پیچیدہ تعلقات رہے ہیں کیونکہ اس عسکریت پسند گروپ کے افغان طالبان سے قریبی تعلقات ہیں اور اسے ہمارے دشمن بھارت کی بھی پوری سرپرستی حاصل ہے جو افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین ایک طویل جنگ جاری ہے۔ انکی کارروائیوں کے نتیجہ میں ہمارے سکیورٹی افسران اور جوانوں سمیت ہزاروں شہری اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرکے جہاں دہشت گردی کی نئی لہر کو ہوا دی گئی وہیں اس تنظیم کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ اگر قومی سلامتی کمیٹی کو اس امر کا ادراک ہو چکا ہے کہ دہشت گردی میں اضافہ کی وجہ ٹی ٹی پی کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کا نتیجہ ہے تو اب اس عسکری تنظیم کے ساتھ کسی قسم کا نرم رویہ رکھے بغیر اسکے کیخلاف فوری اور مؤثر کارروائی کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ اس کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرتے ہوئے کومبنگ جیسے کامیاب اپریشن شروع کئے جائیں۔ سکیورٹی اداروں کو بھی سکیورٹی کے حوالے سے ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ سکیورٹی لیپس کا فائدہ اٹھا کر ہی دہشت گرد اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے خوش آئند اور حوصلہ افزاء ہیں‘ اس پر عملدرآمد کرکے ہی ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے مکمل اور مستقل خلاصی دلائی جا سکتی ہے۔