پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کا تفصیلی نوٹ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے متعلقہ بینچ کی جانب سے ازخود نوٹس چار تین کی اکثریت سے مسترد کیا گیا ہے۔ 25 صفحات پر مشتمل اس نوٹ میں فاضل جج سپریم کورٹ نے باور کرایا ہے کہ ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیرضروری سیاسی تنازعات سے دوچار کر دیا ہے۔ سیاست دان مناسب فورم کے بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہارتے یا جیتتے ہیں مگر عدالت ہر صورت ہار جاتی ہے۔ فاضل جج نے اپنے نوٹ میں تحریر کیا ہے کہ سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ ملک ایک سیاسی اور آئینی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام ذمہ داران ایک قدم پیچھے ہٹیں اور کچھ خودشناسی کا سہارا لیں۔ میں سپریم کورٹ کی بات کروں تو ہم نے ماضی کی تاریک تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
تفصیلی نوٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا ہے کہ متذکرہ کیس میں ازخود نوٹس کو خارج کرنے کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ فل کورٹ کی جانب سے آئین کی دفعہ 184‘ ذیلی دفعہ 3 کے استعمال کے بنیادی اصولوں کی پابندی بنچ پر لازم تھی۔ عدالت کو اپنی غیرجانبداری کیلئے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنی چاہیے اور سیاسی درخواست گزار کا طرز عمل اور نیک نیتی بھی دیکھنی چاہیے۔ اس کیس میں درخواست گزاروں کا رویہ اس امر کا متقاضی نہیں کہ دفعہ 84/3 کا اختیار سماعت استعمال کیا جائے۔ ازخود نوٹس لینے کا مطلب غیرجمہوری اقدار اور حکمت عملی کو فروغ دینا ہوگا۔
فاضل جج سپریم کورٹ نے باور کرایا کہ انتخابات کی تاریخ کا معاملہ ایک تنازعہ سے پیدا ہوا ہے جو بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا تھا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے درست کہا کہ عدالت کو ازخود نوٹس کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کو یکے بعد دیگرے تیسری بار سیاسی نوعیت کے تنازعات میں گھسیٹا گیا ہے۔ مفصل نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کی رائے سے متفق ہوں۔ سپریم کورٹ مسلسل سیاسی تنازعات کے حل کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ 27 فروری کو چائے کے کمرے میں اتفاق ہوا تھا کہ میں بنچ میں بیٹھوں گا۔ میں نے خود کو بنچ سے الگ کیا نہ لاتعلقی کی اور نہ ہی اپنے مختصر نوٹ میں ایسی کوئی وجوہات دی تھیں۔ میں نے اپنے نوٹ میں درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے کے بارے میں بلاہچکچاہٹ رائے دی تھی۔ 23 فروری کی سماعت کے حکم میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا الگ نوٹ بھی تھا جنہوں نے ناقابل سماعت ہونے کی بنیاد پر ازخود نوٹس اور درخواستیں مسترد کی تھیں چنانچہ ازخود نوٹس چار تین کی اکثریت سے مسترد ہوا ہے۔ فاضل جج نے باور کرایا کہ انہوں نے عدالت کو سیاسی تنازعہ سے بچنے کیلئے فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز دی تھی جس سے عوامی اعتماد قائم رہتا۔ نوٹ میں درخواست گزاروں کے طرز عمل اور سیاسی حکمت عملی کا بھی مفصل تذکرہ کیا گیا ہے اور سوال اٹھایا گیا ہے کہ سیاسی حکمت عملی کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنا بذات خود آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ اور کیا سپریم کورٹ کو غیرجمہوری طرز عمل کو فروغ دینے والا بننا چاہیے؟ فاضل جج کے نوٹ کے بقول سپریم کورٹ غیرارادی طور پر سیاسی سٹیک ہولڈرز کو تنازعات کے حل کیلئے عدالتی فورم فراہم کرکے پارلیمنٹ کو کمزور کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی درخواست پر جس انداز سے کارروائی ہوئی‘ اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی جبکہ اس معاملہ پر فل کورٹ تشکیل دینے سے متنازعہ صورتحال سے بچا جا سکتا تھا۔
پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انکے 90 دن کے اندر انتخابات کے لازمی آئینی تقاضے کی بنیاد پر چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیتے ہوئے باور کرایا کہ یہ آئینی تقاضا پورا نہ کرنے کے نظر آنیوالے عزائم کی بنیاد پر آئین نے ہمیں دستک دی ہے۔ انہوں نے ازخود نوٹس کیس سماعت کیلئے اپنی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 9 رکنی بنچ تشکیل دیا اور سماعت کے پہلے ہی روز جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے اختلافی نوٹ عدالتی کارروائی کا حصہ بن گئے جن میں بنچ کے رکن ان فاضل ججوں نے ازخود نوٹس کیس کو ناقابل سماعت قرار دیا جبکہ حکومت کی جانب سے بنچ میں مسٹر جسٹس مظاہر نقوی اور مسٹر جسٹس اعجازالاحسن کی شمولیت پر مختلف وجوہ کے تحت اعتراض کیا گیا چنانچہ فاضل چیف جسٹس نے انہیں بنچ سے الگ کر دیا۔ اسکے بعد جب سات رکنی بنچ کے روبرو کیس کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹس کی بنیاد پر چیف جسٹس نے انہیں بھی بنچ سے الگ کر دیا اور باقیماندہ پانچ ججوں پر مشتمل نیا بنچ تشکیل دے دیا جس کے روبرو ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو دو فاضل ججوں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے بھی اختلافی نوٹس عدالتی کارروائی کا حصہ بنا دیئے گئے جنہوں نے اس کیس کے ناقابل سماعت ہونے سے متعلق برادر ججوں جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے موقف کی تائید کی اور اس کیس کی سماعت سے معذرت کرلی۔ چونکہ یہ چار فاضل جج سات رکنی بنچ کا بھی حصہ تھے اس لئے ان کا یہ موقف بادی النظر میں درست ہے کہ ازخود نوٹس چار تین کی اکثریت کیساتھ مسترد ہوا تاہم فاضل چیف جسٹس نے اس موقف سے اتفاق نہ کیا اور اپنی سربراہی میں باقیماندہ تین ججوں پر مشتمل بنچ کے روبرو کیس کی سماعت جاری رکھی جس پر عدالت میں تلخ اور کشیدہ ماحول بھی پیدا ہوا اور فاضل چیف جسٹس آبدیدہ بھی ہوگئے۔
یہ امر واقع ہے کہ فاضل چیف جسٹس اپنے برادر ساتھی ججوں کی رائے کا احترام کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دے دیتے تو عدالتی کارروائی اور انکے اپنے متنازعہ ہونے کی نوبت ہی نہ آتی مگر انہوں نے تین رکنی بنچ میں ہی کیس کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ صادر کر دیا جبکہ اس بنچ پر سیاسی قیادتوں اور وکلاء تنظیموں کی جانب سے سخت اعتراضات سامنے آچکے تھے اور پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے ازخود اختیارات کو محدود کرنے کیلئے عدالتی اصلاحات بل بھی منظور کرلیا تھا چنانچہ جب تین رکنی بنچ کا فیصلہ صادر ہوا تو قومی اسمبلی نے نہ صرف اس فیصلے کو مسترد کیا بلکہ حکومتی اتحادی جماعتوں کے قائدین بشمول وزیراعظم‘ وزیر خارجہ اور وفاقی کابینہ کے دوسرے ارکان کی جانب سے فاضل چیف جسٹس پر کڑی تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اس سے ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا سوال بھی اٹھا۔ اب جسٹس اطہرمن اللہ کے مفصل نوٹس کے صادر ہونے کے بعد سیاسی اور عدالتی سطح پر صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی ہے اور تین رکنی بنچ کے فیصلہ کے حوالے سے ابہام مزید بڑھ گیا ہے۔ اگر ازخود نوٹس کیس کے چار تین کی اکثریت سے مسترد کئے جانے سے متعلق جسٹس اطہرمن اللہ کا موقف قانونی طور پر درست ہے تو پھر اس کیس میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی اور تین رکنی بنچوں کے فیصلوں کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی چنانچہ اگر اب بھی معاملہ فہمی سے کام نہیں لیا جاتا جس کا جسٹس اطہرمن اللہ نے تقاضا بھی کیا ہے تو ملک میں ایک نئے آئینی اور عدالتی بحران کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ اب حکومتی اتحاد کی قیادتوں کی جانب سے شدومد کے ساتھ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مستعفی ہونے کا تقاضا بھی کیا جارہا ہے اور ایک وکیل راجہ سبطین کی جانب سے ان کیخلاف ایک ریفرنس بھی سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوا دیا گیا ہے۔
اگر سیاسی میدان میں اور سپریم کورٹ کے اندر اس کیس کے حوالے سے ابہام‘ افراتفری اور کشیدگی کی فضا برقرار رہتی ہے تو خدانخواستہ کل کو کوئی بڑا سانحہ ہو سکتا ہے اس لئے فاضل چیف جسٹس سمیت کسی کو بھی اس معاملہ میں اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے اور تین رکنی بنچ کے فیصلہ سمیت تمام متعلقہ آئینی اور قانونی معاملات کا جائزہ لینے کیلئے عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ تشکیل دے دینی چاہیے۔ یقیناً اس موقع پر آئین کی دفعہ 184/3 کے حوالے سے اس بات کا بھی تصفیہ ہو جانا چاہیے کہ آیا سیاسی فریقین کے مابین پیدا ہونیوالے تنازعات بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں جو چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کے متقاضی ہوں۔ یہ سارے معاملات فل کورٹ میں ہی طے ہو سکتے ہیں۔ اس لئے حالات کے تقاضے کے تحت فل کورٹ تشکیل دینا ہی دانشمندانہ اقدام ہوگا۔ جسٹس اطہرمن اللہ کے مفصل نوٹ کے یہ الفاظ عدل گستری کیلئے بہت معنی رکھتے ہیں کہ سیاسی مقدمات میں سیاست دان تو جیتتے یا ہارتے ہیں مگر عدالت ہرصورت ہار جاتی ہے۔