طلبِ پکشپاتِ یاراں

یہ 1998 کا واقعہ ہے. عیدالفطر سے ایک دِن پہلے چوہدری غلام جعفر کا ٹیلی فون آیا. پوچھنے لگے کہ عید اِدھر راولپنڈی میں ہی کرو گے یا گاؤں جاؤ گے؟ جب میں نے اِدھر راولپنڈی میں ہی کرنے کا بتایا تو کہنے لگے "تم میرے پاس جہلم آ جاؤ. اکیلا ہوں اور سخت ڈپریشن میں ہوں. اگر آ جاؤ گے تو طبیعت بہل جائے گی". میں نے کہا کہ کل تو ممکن نہیں، ہاں البتہ ٹرو کو آ سکتا ہوں. مایوس اور شکستہ لہجے میں کہنے لگے "ٹھیک ہے مگر پرسوں شائید تمہیں میرے جنازے میں شرکت کیلئے آنا پڑے"
 اِس blackmailing Emotional کے بعد ان سے خود کشی کا عمل موخر کرنے کی یقین دہانی پر میں نے عید کے دن ہی جہلم جانے کی حامی بھر لی.
غروبِ آفتاب سے پہلے جہلم پہنچا تو چوہدری غلام جعفر کو اپنا منتظر پایا. سرکاری رہائش گاہ میں بے ترتیبی سے بکھری پڑی اشیا ان کی لاپرواہی اور زندگی کے روز مرہ معاملات سے بیزاری اور عدم دلچسپی کی گواہی دے رہی تھیں. بیڈروم میں ٹی وی اور وی سی آر کے اوپر اور دائیں بائیں انڈین پنجابی فلموں اور پاکستانی سٹیج ڈراموں کی کیسٹوں کی بھرمار ان کو تنہائی اور ذہنی تناؤ کو دور کرنے کا واحد علاج نظر آ رہی تھی. یوں اکیلے پن کا کلپنہ ان کو ڈپریشن کے آخری فیز میں داخل ہونے میں ممدو و مددگار ثابت ہو رہا تھا.
ان دنوں غلام جعفر بطور ڈی. ایس. پی. ٹریفک جہلم میں اپنی سرکاری ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے. زندہ دل، برجستہ گو اور حاضر جواب غلام جعفر یونیورسٹی کے زمانے سے ہی فی البدیہہ مہذب و غیر مہذب لطیفہ گوئی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے. اگر وہ سٹیج کی دنیا میں قدم رکھتے تو ان کا شمار پاکستان میں سٹیج کی دنیا کے صفِ اول کے فنکاروں میں ہوتا. انکے بڑے بیٹے ڈاکٹر مفضال کا کہنا ہے کہ بابا اگر قوالی کے میدان میں قدم رکھتے تو غلام فرید, مقبول صابری کے بعد ان کا دوسرا نمبر ہوتا... تاہم اِس وقت انکی زندہ دلی، برجستگی اور حاضر جوابی ناگفتہ بہ حالات کے زیرِ اثر روبہ زوال ہو چکی تھی.رات کو کھانے کے بعد گپ شپ ہوئی. ان کا المیہ یہ تھا کہ رشتوں میں توازن پیدا کرنے کی کوشش میں توازن مزید بگڑ رہا تھا جس کے نتیجے میں وہ خود بھی شدید ذہنی عدم توازن کا شکار ہو گئے تھے. پولیس آفیسر ہونے کے باوجود ان میں روایتی پولیس والی 'خاصیتیں' موجود نہیں تھیں … میرے ساتھ تمام معاملات شئیر کرنے کے بعد وہ خود کو قدرے ہلکا پھلکا اور تروتازہ محسوس کر رہے تھے.
رات کو بات چیت کرتے ہوئے کافی دیر سے سوئے. صبح ان کے ملازم نے اٹھایا اور کہا کہ راولپنڈی سے آپ کے لئے فون ہے. ساتھ والے کمرے میں آ کر سن لیں. میری بیگم کا فون تھا. طنزیہ انداز میں کہنے لگی "اگر عید کے دن آپ کے جانے کی وجہ سے جعفر بھائی نے خود کشی کا ارادہ ترک کر دیا ہو تو گھر واپس آ جائیں. آپ کے گھر میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچے بہت ناخوش ہیں.
غلام جعفر صبح آٹھ بجے مجھے اٹھائے بغیر اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے تھے. تقریباً ساڑھے دس بجے کے قریب وہ واپس اپنی رہائش گاہ پر آئے تو ان کا روایتی خوشگوار مزاج کافی حد تک عَود کر آیا تھا جس نے مجھے کافی طمانیت بخشی. ناشتے سے فارغ ہوتے ہی میں نے انہیں راولپنڈی کے لئے کسی گاڑی میں بٹھانے کو کہا مگر اس دن کسی ٹرمینل پر کوئی گاڑی موجود نہیں تھی. آخر کار انکے کہنے پر ان کے سٹاف نے جی ٹی روڈ پر پرائیویٹ گاڑیوں کو روک کر لفٹ لینے کیلئے ریکویسٹ کرنی شروع کر دی. کافی تگ و دو کے بعد ایک گاڑی والے نے راولپنڈی تک لفٹ دینے کیلئے رضامندی ظاہر کی. میں اس میں سوار ہو گیا.
لینڈ کروزر گاڑی میں دو بوری گندم اور ایک تھیلہ آٹا پڑا ہوا تھا. اس زمانے میں جڑواں شہر میں آٹے کی قلت تھی جو کہ اکثر و بیشتر اب بھی ہوتی رہتی ہے. گاڑی چلانے والا ایک خوبرو نوجوان تھا جبکہ ساتھ سیٹ پر بیٹھے صاحب شکل و شباہت سے اس کے والد لگ رہے تھے. علیک سلیک کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو ان صاحب نے مجھے تعارف کرانے کو کہا. میں نے اپنا محکمانہ تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ میرا دفتر راولپنڈی کچہری میں واقع ہے. مزید کہا کہ آپ سے لفٹ کی درخواست کرنے والے چوہدری غلام جعفر میرے کالج اور یونیورسٹی کے کلاس فیلو رہ چکے ہیں. میری بات مکمل ہونے کے بعد وہ پوچھنے لگے چوہدری قمر زمان (سابقہ چیئرمین نیب) آجکل کدھر ہیں؟ میں نے کہا وہ 1992 ء میں ڈپٹی کمشنر راولپنڈی تھے. اس کے بعد کا نہیں پتہ. کہنے لگے "میں اور قمر دونوں پشاور میں اکٹھے پوسٹڈ رہے ہیں. وہ ڈپٹی کمشنر پشاور تھا اور میں ایس ایس پی پشاور. آجکل میری تعیناتی ایف آئی اے، اسلام آباد میں ہے"
گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے "والدہ کے ساتھ عید منانے کیلئے بڑے بیٹے کے ساتھ گاؤں گیا تھا. اِس نے ایف ایس سی کا امتحان دیا ہے اور آجکل فارغ ہوتا ہے. باقی بچے اسلام آباد میں ہی ہیں اور ہمارا انتظار کر رہے ہیں. والدہ نے اسلام آباد میں آٹے کی قلت کے پیش نظر دو بوری گندم اور ایک آٹے کا تھیلہ ہمارے منع کرنے کے باوجود گاڑی میں رکھوا دیا تھا". انہوں نے اپنا نام چوہدری شریف بتایا تھا. نام کا دوسرا یا پہلا لفظ بہت زور دینے کے باوجود بھی میرے ذہن میں نہیں آ سکا. انکی شکل اب بھی میرے ذہن پہ نقش ہے. انہوں نے مجھے اپنے دفتر آنے کی دعوت بھی دی تھی. میری لاپرواہی کہ میں چاہتے ہوئے بھی کبھی ان سے نہیں مل سکا. ہمارے ہاں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ہے. ہیرے موجود ہیں مگر ان کو تراشنے والے عنقا ہیں. رات کو غلام جعفر کا فون آیا. حسبِ عادت لہکتے ہوئے کہنے لگے "دیکھی ہماری وردی کی طاقت، اتنی بڑی گاڑی والے سے آپکو لفٹ دلا دی". میں نے کہا کہ لفٹ دینے والا گریڈ 20 کا پولیس آفیسر تھا. جس نے مجھے لفٹ دیکر مفت میں اپنے محکمے کی عزت اور وقار میں اضافہ کرنے کی دانستہ سعی کی۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...