افغانستان کے مذہبی اسکالرز کی طالبان کی لڑکیوں کی تعلیمی پابندیوں پرتنقید

افغانستان کے مذہبی اسکالروں نے طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم پرعاید کردہ پابندی پرتنقید کی ہےجبکہ طالبان کے ایک اہم وزیر نے علماء کو خبردارکیا ہےکہ وہ اس متنازع معاملے پرحکومت کے خلاف بغاوت نہ کریں۔افغانستان میں لڑکیاں چھٹی جماعت کے بعد اسکول نہیں جا سکتیں،طالبان کی عاید کردہ تعلیمی پابندی یونیورسٹیوں تک پھیل چکی ہے۔خواتین کو عوامی مقامات بشمول پارکوں اور زیادہ تر قسم کے روزگار سے روک دیا گیا ہے۔عالمی ادارے کے مطابق گذشتہ ہفتے افغان خواتین کو اقوام متحدہ میں کام کرنے سے روک دیا گیاتھا۔تاہم طالبان نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔طالبان حکام بچیوں کی تعلیم پرعایدقدغنوں کومستقل پابندی کے بجائے عارضی معطلی کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن یونیورسٹیاں اور اسکول مارچ میں طالبات کے بغیر دوبارہ کھل گئے۔ان پابندیوں نے بین الاقوامی سطح پر شدید ہنگامہ برپا کر دیا ہے جس سے ایک ایسے وقت میں ملک کی تنہائی میں اضافہ ہوا ہے جب اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور انسانی بحران مزید ابترہو گیا ہے۔افغانستان میں معروف دو مذہبی اسکالرز نے ہفتے کے روزکہا کہ حکام کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ طالبان کی پالیسیوں کے خلاف عوامی مخالفت شاذ و نادر ہی ہوتی ہے، حالانکہ کچھ طالبان رہنماؤں نے فیصلہ سازی کے عمل سے عدم اتفاق کا اظہارکیا ہے۔ایک اسکالر عبدالرحمٰن عابد نے کہا کہ اداروں کو الگ الگ کلاسوں کے ذریعے لڑکیوں اور خواتین کو دوبارہ داخلہ دینے، معلمات کی خدمات حاصل کرنے، ٹائم ٹیبل میں تبدیلی اور یہاں تک کہ نئے تعلیمی مراکز کی تعمیر کی اجازت دینی چاہیے۔انھوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اسلام میں مردوں اور عورتوں کے لیے تعلیم لازمی ہے اور اسلام خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’’میری بیٹی اسکول سے غیر حاضر ہے، میں شرمندہ ہوں،میرے پاس اپنی بیٹی کے لیے کوئی جواب نہیں ہے‘‘۔ ’’میری بیٹی پوچھتی ہے کہ اسلامی نظام میں لڑکیوں کوتعلیم حاصل کرنے کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے‘‘۔انھوں نے کہا کہ اصلاحات کی ضرورت ہے اور خبردار کیا کہ کسی بھی طرح کی تاخیر عالمی اسلامی برادری کی قیمت پر ہے اور حکومت کو بھی کمزور کرتی ہے۔طالبان سے تعلق رکھنے والے ایک اور اسکالر نے اے پی کو بتایا کہ وزارتوں کے پاس لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اب بھی وقت ہے۔ توریالی ہمت نے قندھار میں مقیم سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے اندرونی حلقوں پر مشتمل وزارتوں کا حوالہ دیا۔ان کے حکم پر ہی حکومت نے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی تھی۔ہمت نے کہا کہ تنقید کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک وہ جو نظام کو تباہ کرتی ہے اور دوسری وہ جو اصلاحی تنقید کرتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کو سیکھنے کی اجازت دی ہے لیکن حجاب اور نصاب پر غور کیا جانا چاہیے۔اصلاحی تنقید کی جانی چاہیے اور امارت اسلامیہ کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ لڑکیوں کو یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔قائم مقام وزیرتعلیم ندامحمد ندیم نے جمعہ کے روز کہا کہ علماء کو حکومتی پالیسی کے خلاف نہیں بولنا چاہیے۔ایک اور اسکالرعبدالسمیع الغزنوی نے ایک مذہبی اسکول میں طالبات کو بتایا کہ لڑکیوں کی تعلیم پر کوئی تنازع نہیں ہے۔اسلامی تعلیمات واضح ہیں کہ لڑکیوں کی تعلیم قابل قبول ہے۔تاہم ندا ندیم نے سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں"ایک معززعالم" کا ذکر کرتے ہوئے الغزنوی کوتنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’’آپ نے لوگوں کو بغاوت پراکسایا تو اس کا نتیجہ کیا نکلا؟'اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس (پابندی) کے خلاف بغاوت کی اجازت ہے۔اگر لوگوں کو اس نظام کے خلاف بغاوت کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے تو کیا اس سے مسلمانوں کو فائدہ ہوگا؟‘‘

ای پیپر دی نیشن