چوہدری فرحان شوکت ہنجرا
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کے پانچویں اجلاس میں سال2023-24 کیلئے گندم کی امدادی قیمت 3900روپے فی من مقرر کرنے کی منظوری دی گئی جس سے فلور ملز مالکان اور آٹا مافیا تو تر گئے لیکن کسان کو ایک مرتبہ پھراس کی محنت کے باوجود بے یار ومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنے ملک کے عوام کو خوراک کی فراہمی زراعت کے فروغ اور ملکی زرمبادلہ کا سارا سال ذریعہ بنا رہتا ہے۔ مگر افسوس کسان ہارگئے اور آٹا مافیا اور فلور ملز مالکان جیت گئے۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں صوبائی وزراء اور اداروں کے ذمہ داران اپنے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے رہے اور حفظ ماتقدم سب نے گندم کی امدادی قیمت کی منظوری میں بے شرمی بے حسی اور کسان دشمن فیصلے کی منظوری دی لکھ لعنت ان عوامی نمائندوں پر جن کو معلوم ہے کہ2022-23 سیزن میں گندم کی امدادی قیمت بھی 3900روپے فی من تھی اور اب سیزن 2022-23 کے مقابلے میں 24-23 20میں بھی گندم کی امدادی قیمت وہی ہے حالانکہ اس کاتقابلی جائزہ لیا جائے تو پچھلے سیزن کے مقابلے میں اس سیزن میں گندم کی پیداواری لاگت کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے کسان رہنما چوہدری شوکت چدھڑ فرماتے ہیں کہ حکومت پنجاب نے گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ نہ کرکے کسانوں کی کمر میں چھرا گھونپا ہے پچھلے سال گندم کی امدادی قیمت 3900روپے فی من تھی اور اس وقت کی پی ڈی ایم کی حکومت نے اعلان کیا کہ حکومت 50 لاکھ ٹن گندم کسانوں سے براہ راست خریدے گی لیکن صرف 25 لاکھ ٹن گندم خرید گئی انھوں نے مزید کہا کہ سیزن 2022-23 میں ڈی اے پی کھاد کی فی بوری قیمت 8500روپے تھی اس سال کے سیزن 2023-24میں ڈی اے پی کھاد کی فی بوری قیمت 14500روپے تھی وہ بھی کسانوں کو 16 سے 17 ہزار میں ملی اسی طرح پچھلے سیزن میں یوریا کھاد 1800روپے اس سیزن میں 6000 نائٹرو فاس 3500جبکہ اس سیزن میں 9000 پوٹاش کھاد4000اور اس مرتبہ 17000 فی بیگ کے حساب سے کسانوں نے خریدی ڈیزل کی قیمت سیزن 2022-23 میی 2 سو روپے فی لٹر کے قریب تھی سیزن 2023-24میں ڈیزل کی قیمت فی لٹر 300روپے کے قریب ہے بجلی کی قیمت 12سے19روپے فی یونٹ تھی اب بجلی کی قیمت 57 سے 120روپے فی یونٹ ہے آبیانہ فی ایکڑ 400روپے تھا اب 2200روپے فی ایکڑ کر دیا گیا ہے زرعی ادویات کی قیمتوں میں 3 سو گنا اضافہ ہوا ہے سیزن 2022-23کے مقابلے میں زرعی مداخل برداشت زرعی مشینری کے استعمال کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے پچھلے سال گندم کی ہارویسٹر سے گندم کی فصل کی فی ایکڑ کٹائی 5ہزار روپے تھی اب یہ 8سے 10ہزار روپے فی ایکڑ ہوگی پنجاب کا کسان تو دل برداشتہ ہوگیا ہے
یہ حقیقت تو سب پر آشکار ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے آے روز بجلی گیس پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ معمول ہے ٹیکسز کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ادھر بجلی گیس پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ادھر پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور کھاد زرعی ادویات کے کارخانوں فیکٹریوں کے مالکان قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں ٹرانسپورٹ اور ٹرانسپورٹیشن کے کراے بڑھ جاتے ہیں شوگر, فلور ملز مالکان چینی آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق کر دیتے ہیں ہم اس پر اعتراض اس لیے نہیں نہیں کرتے کیونکہ پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے
اب ظلم کی انتہا دیکھئے اجناس کسانوں کی اور ان کی اجناس کی قیمتوں کا تعین قومی اقتصادی رابطہ کونسل اور دیگر ادارے کرتے ہیں کسان ان امدادی قیمتوں کے مقرر ہونے کے عمل میں شامل ہی نہیں گندم کسان سے حکومت اور فلور ملز مالکان خریدتے ہیں بجلی گیس پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا فلور ملز مالکان آٹے کی قیمت میں بغیر کسی حکومتی منظوری سے اضافہ کر دیتے ہیں حکومت گندم کی قیمت میں اضافہ کرکے اپنا خزانہ بھر لیتی ہے اور جو گندم کا موجد کسان ہے وہ منہ تکتے ہی رہ جاتا ہے چینی کی قیمت آپ کے سامنے ہے گنا کسانوں سے سستے خرید کر حکومت کسے چینی برآمد کرنے کی منظوری لے کر شوگر ملز مالکان کے وارے نیارے ہوگئے اور عوام مہنگی چینی خریدنے پر مجبور اور گنے کے کاشتکار در بدر ،صوبہ پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے بھی سب سے بڑا صوبہ ہے اور زراعت کا شعبہ اس کا اہم ترین حصہ ہے لیکن اس حصہ دار میں کسانوں کی فلاح وبہبود ترقی کا کوئی حصہ نہیں اصل حصہ دار حکومت حکمران شوگر آٹا مافیاز ہی ہیں صوبائی اسمبلی پنجاب کے ممبران اسمبلیز زیادہ تر دیہی علاقوں سے منتخب ہو کر آے ہیں وہ گندم کی امدادی قیمت میں اضافہ نہ کروا نے کے برابر کے مجرم ہیں کسانوں کے معاشی استحصال کے زمہ دار ہیں زراعت کی تباہی کے حصہ دار ہیں لیکن کیا اب بھی پنجاب کے دیہاتوں میں بسنے والوں کی ہوش ٹھکانے نہیں آئی کہ جنہوں نے اپنے ممبران کو اسمبلیوں میں پہنچانے کیلئے دن رات ایک کردی ان کی کامیابی کا جشن منایا مبارکبادیں دیں اپنے مخالفین کے لتے لیے اور اب ان اسمبلیوں کے ممبران نے ان کے ارمانوں کا خون کردیا ان کی محنت کو مافیاز کے آگے سرنڈر کردیا اسمبلی اور صوبائی کابینہ میں خاموش تماشائی بنے رہے کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ جن کو ان کسانوں نے جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دیئے اور ان ممبران اسمبلیز نے ان کی جھولی خالی کردی ان کا گریبان پکڑیں ان کا محاسبہ کریں کہ تم تو ترقی کرو اور کسان تنزلی کا شکار ہو جائیں اگر اب بھی کسی نے ان کا محاسبہ نہ کیا تو تاریخ کسانوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی اور ان کا نام ونشان نہیں رہے گا۔
بے بس کسان کی کمر میں چھرا گھونپ دیا گیا
Apr 09, 2024