فلسطینیوں کے لبوں پر قہر ستم میں ایک ہی ورد

دل نوازعارف 
  ایک دو روز میںپوری دنیا میں مسلمان جب عید الفطر منا رہے ہوں گے کس قدر  افسوسناک لمحات ہوں گے کہ اس دن اہل غزہ  ملبے کے ڈھیر گھروں کے باہر اپنوں کی جدائی میںسوگ منا رہے ہوں گے۔ فلسطینیوں  پر قیامت ٹوٹنے کا یہ سلسلہ چھ ماہ سے جاری ہے اور آج کے دن بھی عالمی اداروں کا ضمیر  بے حسی کی نیند سو رہا ہے۔   7 اکتوبر 2023کو شروع ہونیوالی حماس اسرائیل جنگ میں اب تک 37  ہزار سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 80 ہزار کو پہنچ چکی ہے۔  ، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 85% آبادی ڈس پلیسڈہوچکی ہے اورساٹھ فیصد ڈھانچہ (infrastructure )تباہ ہو چکا ہے۔حق و باطل کی اس جنگ میں اہل فلسطین سیسہ پلا ئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں ان کے پائے استقامت میں زرا برابر لرزش نہیں آئی ۔ اگرچہ ان کے گھربار,کاروبار ,جان مال اور اولاد  سب کچھ تباہ ہوچکا ہے۔ اسی سب کچھ نقصان کے باوجود ان کے لب حرفِ شکایت سے نا آشنا ہیں۔ان کے منہ سے  ہم  یہی سن رہے ہیںحسبنااللہ و نعم الوکیل ، ان کے قلوب و اذہان ایمان ویقین کے دولتِ غیر مترقبہ سے مالامال ہیں۔ ان کی عزیمت و استقامت میں اصحابِ رسول کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان پر ایک نہیں سیکڑوں کربلائیں گزرچکی ہیں ۔ان پرپانی, بجلی ,نیٹ اور خوراک وادویات بندہو چکی ہیں، ان کے گھر مسمار کر کے ملبے کے ڈھیر بنادیے گئے ہیں۔وہ قافلہ کربلا کی طرح خیموں  میں بم بارود کی بارش میں گرمی سردی سے بچاؤ کے اسباب سے محروم موت کے سائے میں  بے بسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔کچھ زخموں سے چور ہیں ، کچھ ملبے تلے دبے ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لیے معذور ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی ہرقیمتی متاع راہ حق میں قربان کر چکے ہیں۔
 جہاں تک مسلم قیادت کا تعلق ہے خواہ فوجی ہو کے سول حق و باطل کے اس  معرکے میں انھوں نے خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی کرتے نظر آرہے ہیں۔ 39 مسلم ممالک کی  اجتماعی فوج ہو یا 57 اسلامی مالک کی انفرادی افواج اسرائیل کے سامنے سر جھکائے د بک کے بیٹھی ہوئی ہیں۔ کسی ایک جہاز اور میزائل کارخ اس طرف نہ ہوسکا۔ اور اسرائیل  نے تو مسلم حکمرانوں کا زور بازو بھی آزما لیا۔حکمرانان ممالک اسلامیہ اپنے اپنے میں عیش وطیش میں مگن ہیں۔ کہیں اپنوں کو دبانے اور نیچا دکھانے میں مصروف ہیں توکہیں رقص و سرور کی محافل سجائے بیٹھے ہیں۔ہزاروں مردوں عورتوں اور معصوم بچوں کی شہارتیں ان کے تن مردہ میں کوئی غیرت وحمیت پیدا نہ کر سکیں او آئی سی (OIC)بجاطور پر انجمن غلامان امریکہ ثابت ہو چکی ہے۔ اس سے کسی جرت مندانہ اقدام کی توقع دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔
آج   ہم سارے مسلمان فلسطینیوں کے مجرم ہیں ہمارا کردارکو فیوں جیسا ہے ,جن میں کوئی ایک بھی مردِ حرّنہیں ہے مگر حکمران سب سے بڑے مجرم ہیں۔ ان کے بھی اور اللہ کے بھی یہ خود جہادکرتے نہیں اور عوام کو کرنے نہیں د یتے۔  اللہ تعالی فرماتا کہ:" تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اللہ کے راستے میں  نہیں لڑتے ،کمزور مردو عورتوں اور بچوں کی خاطرجو دعا کر رہے ہیں۔ اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے نکال ، جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور بنادے اپنے پاس سے ہمارے لیے حمایتی اور مدد گار "۔  (النساء آیت 75) ایک اورمقام پر اسی  قسم کا مضمون وارد ہوا کہ" تمہارے مال مکانات اور کاروبار جن کے خسارے کا تمہیں خوف ہے اگر اللہ اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو پھر انتظار کرو اللہ کے فیصلے (عذاب) کا۔
انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ان احکامات کو نظر اندازکیا ہوا ہے۔ یہ سب اللہ کے سرکش اور طاغوت عصر امر یکہ کے پائے  تلے  دبے ہیں اور اسی کی اطاعت کرتے ہیں۔
کہاں  زیبا تم کو مسندِ سروری ہے
  سرِ ایمان سے نسبت، تمہیں سرسری سے
 دلوں سے دشمن کے رعبِ مسلم گیا تم سے
  دفاع ، میراثِ پرکھاں بھی نہ ہوسکا تم سے
  وہم کے مارو، خوفِ موت تم پہ طاری  ہے
 سبھی کو نفرت تم سے ، نو میدی ,بیزاری ہے
غزاء میں آج جو رقص بسمل  جاری ہے ،اس جرم کی سزا آخرت میں ملے گی ہی اس دنیا میں بھی  منافق حکمرانوں کے غرق ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔اس جرم کی سزا آخرت میں ملے گی ہی اس دنیا میں بھی عذاب  کا کوڑا برسنے کاقوی امکان موجود ہے اوسطاََ 200 افراد کو اسرائیل  روزانہ شہید اور اتنے ہی گھر وں کو ملبے کا ڈھیر بنا رہا ہے اور ہم مسلمان ٹس سے مس نہیں ہو رہے تو پھر عذاب تو آئے گا. بقول اقبال 
 فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
 کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
 جہاں تک عامتہ الناس کا تعلق ہے اسرائیلی   جبرو تشدد اورنسل کشی پر پوری دنیا میں احتجاج ہوا اور ہو رہا ہے۔ اس کلمہ حق کہنے میں غیرمسلم ,مسلمانوں سے آگے نظر آئے ہیں ، جگہ جگہ اور ملکوں ملکو ں فلسطینیوں سے ہمدردی اور اسرائیلوں پر لعنت بھیجی گئی۔ اپنے حکمرانوں پر نسل کشی بند کرنے ، سیز فائر اور شیم آن یو کے نعرے لگائے گئے۔ مگر ہمارے ہاں یہ جرأت کہیں نظر نہیں آئی ۔ہم نے  اپنے حکرانوں کی بے حسی ، بے غیرتی اور مجرمان غفلت پرشیم آن یو کے نعرے نہیں لگائے ہم میں سے کسی  نے ایمبیسی کے سامنے خود کو نذر ِآتش نہیں کیا۔ ہم بھی مجرم ہیں۔ مصری اپنے حکمراں عربی اپنے شیخوں اور ہم اپنے حکمرانوں کے خلاف نعرہ زن نہیں ہوئے تا کہ وہ مجبور ہوتے فلسطینیوں کی مدد کرنے پرحالات انتہائی مایوس کن ہیں۔ امید کی کوئی کرن نظرنہیں آتی۔ آٹے میں نمک برابر کام جو ہو رہا ہے وہ ایران، لبنان اور حوثیوں کی طرف سے ہو رہا ہے۔اللہ پاک ان سب فلسطینیوں اور حماس کی مدد فرمائے ،اگرچہ امت تو مرحوم ہو گئی ہے۔ 
 رگ وپے میں مسلم کے حرارت نہیں ہے
 کہیں بھی اب مومن کی امارت نہیں ہے

ای پیپر دی نیشن