آپ نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا، مطلب آپ نے خوب یاد دلایا کہ ایک پلان بندوں کا ہوتا ہے اور ایک اللہ کا۔ دراصل تو یہ قرآنی آیت کا مفہوم ہے جس میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی تدبیر ہی غالب رہتی ہے۔ بہرحال، اڈیالہ جیل میں 35 افراد کیلئے مختص جگہ کے اکیلے مکین نے اخبار نویسوں سے گفتگو کے دوران یہ مفہوم یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا کہ ماضی قریب ترین میں پوری قوم مشیئت الٰہی کے اس اصول کا حیرت انگیز مظاہرہ دیکھ چکی ہے۔
جی ، بالکل ماضی قریب ترین یعنی ، گویا کہ کل پرسوں ہی کی بات ہے کہ ایک صاحب نے فیصلہ کیا کہ ’’چشمہ فیض‘‘ کے تسلسل میں اضافہ کروں گا، پھر اسے بڑا کوتوال لگائوں گا، کوتوالی کے بھرپور منصوبے (2018ء والے منصوبے کا پلس) پر عمل کرتے ہوئے الیکشن میں دوتہائی اکثریت حاصل کروں گا، آئین میں ترمیم کر کے صدارتی نظام لائوں گا، صدر بن جائوں گا اور وہ بھی پانچ دس سال کیلئے نہیں، تاحیات اور تاحیات کی مدت بھی غیر معینہ تھی کہ یہ امید گھر سے کسی روشن ضمیر مرشدانی نے جو غیب پر قدرت کا دعویٰ بھی رکھتی تھی، دلا رکھی تھی کہ آب حیات پلا کر تاحیات کی مدت میں غیر معینہ، لمبی، بہت ہی لمبی توسیع کروں گی۔ تاحیات بادشاہت کے پہلے دور میں دس ہزار ناہنجاروں کے خاتمے کا ارادہ بھی تھا۔ دس ہزار افراد کی لسٹ تو بہت پہلے سے تیار تھی۔ ٹی وی پر تشریف فرما حکمران جماعت کے ’’سفارت کار‘ اینکر پرسنز کے روپ میں پہلے ہی یہ بات اظہر من الشمس سے بھی بڑھ کر ثابت کر چکے تھے کہ ظل الٰہی کے راستے میں دور دور تک کوئی رکاوٹ نہیں، ایک پیج ناقابل شکست، فائر پروف بھی اور واٹر پروف بھی۔
اور پھر وہی ہوا، واللہ خیر المٰکرین۔ سب تدبیریں ایک ایک کر کے الٹنے لگیں۔ بساط پلٹی تو بچائو کے مورچے سجائے، سب کے سب باری باری منہدم ہوتے گئے، ریت کے گھروں کی طرح ڈھے گئے اور تاحیات کا خواب لمحوں میں بکھر گیا۔
عدم اعتماد ٹالنے کے کتنے چارے کئے، سب اکارت۔ حکومت کا تخت بالآخر چھن گیا۔ اب متنبہ کیا کہ لانگ مارچ کرکے تخت واپس لوں گا۔پلان زبردست تھا لیکن لوگ نہیں آئے۔ لاکھ کہا خون کی زنجیریں توڑ دو، میری خاطر نکلو، مجھ پر جاں دو، مجھ پر مر جائو کہ قبر میں یہی پہلا سوال تھا۔ لیکن جاں نثاروں نے خوف کی زنجیروں کو طلائی زیور بنا لیا
پھر بڑے کوتوال کی تقرری کا مسئلہ اٹھا۔ جان پر بن آئی۔ کہا یہ تو نہیں ہونے دوں گا، ہر قیمت پر روکوں گا۔ جاں نثاروں کو یقین دلایا کہ لکھ لو، یہ والا تو کسی طور پر بڑا کوتوال بن ہی نہیں سکتا۔ میں اجازت دوں گا تو ہی بنے گا اور میں نے اجازت دینی ہی نہیں۔
بڑے کوتوال کی تقرری ہو گئی، کسی نے جھوٹے منہ بھی سبکدوش ظل الٰہی سے اجازت نہیں لی۔ سبکدوش ظل الٰہی منہ دیکھتے رہ گئے۔
پھر خفیہ ہی خفیہ ایک زبردست انقلابی منصوبہ بنا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، جتھے بن گئے۔ انقلاب کی تاریخ دے دی گئی، پکّا بندوبست تھا کہ اندر سے کمک آئے گی، شام کے چراغ جلنے سے پہلے مسند شاہی پر چراغاں ہو گا۔ پھر کیا ہوا، ظل الٰہی (سبکدوش) مسند شاہی کے بجائے شاہی مہمان خانے پہنچ گئے۔ انصافیاتی نظام نے بہرحال کچھ نہ کچھ اشک شوئی کی، رہائش کیلئے /35 افراد کی جگہ سبکدوش ظل الٰہی کو عنایت کر دی، شاہی مطبخ کا بھی انتظام ہو گیا، دیسی بکروں مرغوں انڈوں اور شہد کی کھیپ روزانہ کے حساب سے شاہی مطبخ میں پہنچنے لگی، مزید دلجوئی کیلئے ہر روز ستر اسی افراد کی ملاقات کا اہتمام بھی کیا گیا کہ طبیعت بہلی رہے۔
لیکن طبیعت ہے کہ بہلتی ہی نہیں، دل ہے کہ مانتا ہی نہیں، دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی ’’کرسی‘‘ کے رات دن۔
کرسی اب پہنچ سے باہر ہے، تاحیات باہر۔ تو اس طرح ہم نے دیکھا، آپ نے دیکھا، سب نے دیکھا کہ ایک تدبیر ’’ظل الٰہی‘‘ کی ہوتی ہے اور ایک تدبیر مشیت الٰہی کی۔
آپ نے یاد دلایا تو ہمیں یاد آیا۔ واللہ کیا خوب یاد دلایا۔
_____
احادیث رسول کی روشنی میں علما کے دین اور فقہا ئے کرام کا اتفاق رائے ہے کہ کسی مسلمان کو (چاہے وہ ظاہری مسلمان ، بے عمل، فاسق اور فاجر ہی کیوں نہ ہو) کو ’’جہنمی‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں آدمی دوزخ ہی میں جائے گا۔ ایسا ہی ہے۔
لیکن پرسوں کی رات، ایک قومی ٹی وی پر گریٹ خان کے بڑے مولوی صاحب نمودار ہوئے اور فرمایا موجودہ حکمران خبیث اور جہنمی ہیں۔
بظاہر لگتا تھا سخت اشتعال میں آ کر یہ فرما دیا۔ حالانکہ سوال میں اشتعال تھا ہی نہیں، ضرور کوئی نادیدہ ’’وجوہات‘‘ ہوں گی۔ سوال کیا گیا، موجودہ حالات میں آپ (اپنے ممدوح گریٹ خان) کو کیا مشورہ دیں گے، انہیں کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
فرمایا، موجودہ حکمران جہنم میں جائیں گے، یہ خبیث ہیں، مرتے وقت ان خبیثوں کو پتہ چلے گا۔ خاتون اینکر نے جو سوال کیا، اس کے جواب میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔
دو سال پہلے یہ بڑے مولوی صاحب، ایک چھوٹے مولوی کے ساتھ ،27 رمضان کی رات ایک ’’لائیو‘‘ پروگرام پر تھے۔ چھوٹے مولوی نے کہا، ستائیسویں شب کا کیا ہے، ہر سال آنی ہے۔ گریٹ خان کا دیدار اصل چیز ہے۔ یہ مل جائے تو بیڑا پار ہے۔ شب قدر کو فی الحال ایک طرف رکھو۔
چھوٹے مولوی صاحب کی تائید بڑے مولوی صاحب نے مسکراتی خاموشی کے ساتھ کی۔ موصوف ریش مبارک سمیت مسکراتے رہے۔ حق سچ کا جھنڈا گاڑتے رہے۔
_____
ایک ہی دن کی دو خبریں ہیں، خبر نمبر ایک میں ہے کہ صوبہ پختونخواہ میں دہشت گردی میں نہایت تیز رفتار اضافہ ہوا، تین ماہ میں 130 دہشت گردیاں ہوئیں۔ سب سے زیادہ ڈیرہ اسمعٰیل خان میں (صوبے کا ’’اصل‘‘ دارالحکومت) ہوئیں۔ خبر نمبر 2 کے مطابق پشاور میں سٹریٹ کرائم بے قابو رفتار سے بڑھ گئے۔
ارے بھئی، سیّاں بھئے کوتوال والا معاملہ ہے۔ یہ تو ہو گا بلکہ یہی تو ہو گا۔