عید کی حقیقی خوشیاں

 حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارنپوری
Hakimsahanpuri@gmail.com
29 یا 30 روزوں کی تکمیل کے بعد مسلمانان عالم پروردگار کی جانب سے جو اکرام وانعام میسر آتا ہے  اسے عید کہا جاتا ہے ۔ عید سعید کا یہی وہ عدیم المثال دن ہے جس روز مسلمان رنگ ونسل‘ چھوٹے بڑے ،ادنیٰ واعلی کی تمیز کے بغیر خوشیاں کشید اور مسرتیں تقسیم کرتے ہیں ۔اللہ پاک مسلمانان عالم کو اس باسعادت موقع پر ایمان کا توشہ اور دنیا کی دولت عنایت کرے۔ امت کو اتحاد ، یگانت اور یکجہتی کا پرتو( عکس ) بنا دے تاکہ اخوت اور استحکام کے ساتھ دنیا پر راج کرے…!! اللہ پاک عید کی ان مبارک ساعتوں میں فلسطین اور کشمیر سیمت جہاں جہاں مسلمان سامراج کی سختیوں کا شکار ہیں انہیں آزادی کی دولت سے سرفراز کرے۔ مجبور اور مقہور مسلمان بھی آزاد فضاؤں میں اپنے رب کو یاد کر سکیں‘ آمین
رمضان کریم کا آخری عشرہ قیام پاکستان کی ناقابل فراموش اور قابل رشک یادوں کا مرقع ہے ماہ صیام کی 26 ویں شب اللہ کریم نے برصغیر کے مسلمانوں کو نئے اور آزاد وطن کا عظیم ترین تحفہ عطا کیا۔ پاکستان  یہ قربانیوں کا تسلسل ہے جہ مسلمان برصغیر نے آزادی  کی خاطر دیں انشاء اللہ پاکستان صبح قیامت تک آباد رہے گا قیوم ساقی یاد آگئے
سونی دھرتی اللہ رکھے
 قدم قدم آباد تجھے
جب تک سورج چاند ہے باقی
 ہم دیکھیں آزاد تجھے
رمضان کا سب سے بڑا فائدہ وہ تبدیلی ہے جسے اہل تصوف و اہل عشق تزکیہ نفس سے تعبیر کرتے ہیں۔ پورے ایک ماہ کے کورس کے بعد مسلمان احساس اور مروت سے لبریز ہو جاتا ہے جھوٹ اور غیبت سیمت تمام برائیوں سے خود کو دور کرلیتا ہے یہی وہ واحد  مہینہ ہے جسکا اثر پورے سال ہمارہ زندگی پر غالب رہتا ہے ،گویا رمضان کریم کے بعد زندگی توازن کا مظہر بن جاتی ہے۔ لوگ معمولات زندگی کو افراط وتفریط سے پاک صاف کر لیتے ہیں ایسے ہی دل اور دماغ ہوتے ہیں جہاں حب رسولؐ اور اطاعت اللہ کے چراغ روشن رکھتے ہیں اور جو لوگ رمضان کے بعد زندگی میں دوبارہ جھوٹ ،منافقت ،دھوکہ اور غیبت کے دروازے کھول لیتے ہیں وہ رمضان کی رحمت اور قرآن کے پیغام کی برکتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہر صورت ان خرافات سے خود کو بجانا چاہیے۔ جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ ہے، جھوٹ بولنا یا جھوٹا عمل  پوری زندگی کو خرافات زدہ کردیتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں امام بخاریؒ کا وہ سفر روشن حوالے کے طور پر محفوظ ہے جب انہیں ایک حدیث کی سند کے لیے طویل مسافت طے کرنا پڑی ۔  امام صاحب ؒمنزل  میں مذکورہ شخص کے پاس پہنچنے تو انہیں بچے کے ساتھ مشغول پایا بچہ کوئی چیز پانے کی ضد کررہا تھا ۔ والد نے بچے کو فلاں چیز دلانے کا وعدہ کیا حالانکہ اس موسم میں مذکورہ شے کا ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی تھا۔ گویا بچے کو خوش کرنے کے لیے اسے جھوٹی تسلی دی گئی
امام بخاری ؒ سوال کئے بغیر واپس لوٹ آئے۔ استفسار پر جواب دیا کہ جو شخص معمولات زندگی میں جھوٹی بات کا سہارہ لے اس کی سند حدیث قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ ہمیں چاہیے ہم اپنی انفرادی واجتماعی زندگیوں سے جھوٹ کے کانٹوں کو باہر نکال دیں۔ جھوٹ بولنے والے کے لیے دین اسلام میں سخت وعید ہے اللہ پاک نے صرف جھوٹے پر ہی لعنت فرمائی۔ جھوٹ بولنے  والے کی گواہی بھی قبول نہیں ہوتی۔ اس لیے اساتذہ کرام والدین اور علماء ومشائخ کو نئی نسل کو گاہے بگاہے  اخلاقیات کا درس دیتے رہنا چاہیے تاکہ ہمارے بچوں کی زندگیاں ایک دوسرے کے لیے نعمت کا روپ دھار لیں۔

ای پیپر دی نیشن