وہ قرض جو واجب بھی نہ تھے

Apr 09, 2024

مطلوب احمد وڑائچ

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
کہا جاتا ہے کہ دشمن کی فوجیں جب انگلینڈ پر چڑھائی کرتے کرتے بہت قریب آ گئیں تو وزیراعظم چرچل کے پاس کابینہ کے کچھ لوگ گئے ،خطرے سے آگاہ کیا کہ دشمن برطانیہ کو تہ  تیغ اورتاراج کرکے فتح کرنا چاہتا ہے ۔ اس موقع پر چرچل کی طرف سے بڑے تحمل اوربرداشت سے کہا گیا ، کیا عدالتیں انصاف کر رہی ہیں ان کو بتایا گیا جی بالکل عدالتیں آئین، قانون وضوابط کے مطابق انصاف کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں تو چرچل کی طرف سے کہا گیا کہ پھر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی جب تک معاشرے میں انصاف کی کارفرمائی ہے۔ چرچل کا یہ بیان لوگ ایک سند کے ساتھ کوڈ کرتے ہیں لیکن میں اس سے بھی بڑا بیان آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو آج سے چودہ سو سال قبل خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے دیا گیا تھا۔ ان کی طرف سے انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا گیا تھا کہ ’’کفر کا معاشرہ چلتا سکتا ظلم کا یعنی ناانصافی کا معاشرہ نہیں چل سکتا‘‘ آج ہم نے دیکھنا ہے کہ ہمارے ہاں کیا معاشرہ واقعی ہی انصاف کا معاشرہ ہے۔ یہاں انصاف کی کارفرمائی ہے۔
قارئین!عدلیہ وانصاف کے متعلق یوں تو تاریخ بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے ۔مجھے یہاں ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک طوطا اور مینا کہیں اڑتے ہوئے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک شہر نظر آیا اور رات بسر کرنے کے لیے انہوں نے ایک درخت پر بسیرا کیا ۔طوطے کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس شہر میں عمارتیں کھنڈرات کی طرح نظر آ رہی تھیں اور انسان تقریباً ناپید تھے۔تھوڑی دیر بعد اس درخت پر ایک اُلّو کی نظر پڑ گئی، اس نے دیکھا ایک خوبصورت مینا طوطے کے ساتھ موجود ہے تو اس نے مینا کو پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لیجانے لگا ،طوطے نے بہت احتجاج کیا ،دُہائی دی لیکن اس کی ایک نہ سُنی گئی اور اُلّو مینا کو لے کر چلتا بنا۔خیر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق طوطے نے شہر کے قاضی سے درخواست کی کہ اِس کو اُلّوسے اِس کی مینا واپس دلوائی جائے۔قاضی کا دربار لگا ہوا تھا ۔قاضی نے طوطے کی بپتا بھی سُنی اور اُلّو کی جھوٹی کہانی بھی سُنی اور فیصلہ یہ دیا کہ مینا پر اُلّو کا حق ہے ۔طوطا یہ فیصلہ سن کر سٹپٹا گیا ،دہائیاں دینے لگا  اور روتے ہوئے بولا کہ اس شہر کا اجڑا ہوا اور ویران ماحول دیکھ کر مجھے پہلے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ اس شہر کے اجڑنے اور برباد ہونے کا سبب کیا ہے کیونکہ جہاں انصاف نہیں ہوتا وہ معاشرے اور شہر اجڑ جاتے ہیں اور تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔
عدلیہ کسی بھی ملک، معاشرے کا اہم ترین حصہ ہوتی ہے۔وہ جو کردار ادا کرتی ہے اس سے ترقی اور خوشحالی کی منزلوں کی راہنمائی بھی ہوتی ہے۔ عدلیہ کا کسی بھی معاشرے میں بہترین کردار ہوتا ہے۔ جس ادارے کا بہترین کردار ہوتا ہے اس ادارے کو کچھ لوگوں کی طرف سے استعمال کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بہت سے ججوں کا نام لیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے انصاف کی کارفرمائی کے بجائے دبائو میں آ کر فیصلے کیے گئے ہوں گے ایسے جج لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ایسے ججوں کی تعداد ان ججوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جو کمپرمائزڈ ہو جاتے ہیں۔ آپ جب گننے بیٹھتے ہیں تو آپ پوری کوشش کرکے دیکھ لیں کہ ایسے ججز جو کمپرمائز ہوئے ان کی تعداد آپ کو دس بارہ سے زیادہ نظر نہیں آئے گی جب کہ پاکستان میں اب تک اعلیٰ عدلیہ کے ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ججز ضرور اپنی خدمات انجام دے کر باعزت طریقے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ یہ ہزاروں جج اپنی ذمہ داریاں احسن  ایمانداری اور دیانتداری سے ادا کر کے سبکدوش ہوئے تھے۔یہی ادارے اور معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
ماضی میں اگر عدلیہ میں ایسے کچھ تو کمپرومائز ڈججز رہے ہیں تومیں سمجھتا ہوں کہ ان کی غلطیوں، کوتاہیوں یا جو انہوں نے کمپرمائز ہو کر فیصلے کیے، ان سب کو قاضی فائزعیسیٰ صاحب کی طرف سے نگیٹ کر دیا گیا، دوسرے الفاظ میں ان سب کا مدوا کر دیا گیا۔ سب سے بڑا کیس ذوالفقار علی بھٹو کا کیس ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔اس کیس کو بطورِ نظیر نہ صرف یہ کہ بیرونی دنیا میں بالکل پاکستان میں بھی پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کو ذوالفقار علی بھٹو کے چاہنے والوں کی طرف سے اور بہت سے غیرجانبدار حلقوں کی طرف سے بھی جوڈیشل مرڈر قرار دیاگیا تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے اس کیس کو ذاتی دلچسپی لے کر سنا اور ایک بہترین فیصلہ کیا گیا۔9رکنی بنچ کی طرف سے جس میں اعلیٰ صلاحیت کے ججز موجود تھے، ان کی طرف سے متفقہ طور پر ذوالفقار علی بھٹو کو جس طرح سے سزا دی گئی اس عمل کو غیرشفاف قرار دیا گیا۔اب قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے سامنے ایک اور بہت بڑا کیس ہے۔ 6 ججزکی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لیٹر لکھا گیا کہ ان پر کچھ فیصلوں کے حوالے سے دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ تو سپریم جوڈیشل کونسل ایک کنونشن بلائے جس میں دیگر ہائی کورٹس کے ججز سے بھی پوچھا جائے کہ کیا ان کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ جسٹس قاضی فائزصاحب کی طرف سے وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ ملاقات کی گئی اور اس سے پہلے انہوں نے سارے کے سارے ججوں کا فل کورٹ بلوایا تھا۔ اس دوران یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے۔ جسٹس (ر)تصدیق حسین جیلانی کی سربراہی میں یہ کمیشن تشکیل دیا گیا۔ ٹی او آرز بنا دیئے گئے لیکن کچھ تحفظات کی بنا پر تصدیق حسین جیلانی صاحب کی طرف سے اس انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی گئی تو قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی طرف سے اس معاملے کو اَنا کا مسئلہ نہیں بنایا گیا انہوں نے فوری طور پر اگلے ہی لمحے لارجر بنچ تشکیل دے دیا جس کی سربراہی وہ خود کر رہے ہیں جب کہ اس میں دیگر 6ججز موجود ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شمار کیا جائے تو یہ سات رکنی لارجر بنچ ہے، اس پر بھی کچھ لوگوں کی طرف سے کہا گیا کہ فل کورٹ بنایا جانا چاہیے تو قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے جو ایک دن کی سماعت ہوئی انہوں نے اس سماعت کو سمیٹتے ہوئے اس دن کے آخر پر یہ بھی کہہ دیا کہ 29اپریل کو کیس کی پھر سماعت ہو گی اور ہو سکتا ہے کہ فل کورٹ ہی تشکیل دے دیا جائے۔ 
ججوں پر تنقید ایک آسان کام ہے لیکن ان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرف سے عموما معاشرتی سطح پر صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔آج دیکھ لیجیے کہ جج صاحبان آئین قانون اور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں تو ان کو کن مشکلات کا سامنا ہے۔ سپریم کورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خط لکھے جا رہے ہیں اور ان میں مہلک پاؤڈر بھی ڈال کر رکھا گیا ہے۔جج حضرات کو ایسی صورتحال کا سامنا صرف اسی لیے ہے کہ وہ اپنے ضمیر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا چاہتے ہیں۔
جس طرح سے عدلیہ آج قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایسے کچھ ججوں کے کیے کا کفارہ ادا کر رہے ہیں، جن کو کمپرمائزڈ جج کہا جاتا تھا، جس طرح سے قاضی فائز عیسیٰ صاحب عدلیہ کی ڈائریکشن درست کر رہے ہیں تو کیا سیاستدان بذاتِ خود اور دیگر ادارے وہ بھی ایسا ہی کریں گے؟

مزیدخبریں