تحریکوں کی لوٹ سیل

ہمارے یہاں تحریکوں کی  ہمیشہ سے ہی فراوانی رہی ہے۔ یہاں بات تحریک والی سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ سیاسی  جماعتوں کی تحریکوں کی ہورہی ہے،احتجاج والی تحریکیں، بڑے بڑے برینڈز سال میں کم از کم دو بار لوٹ سیل لگا دیتے ہیں۔ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے، مال جو بک نہیں رہا ہوتا اسے نکالنے کیلئے ،عموماً ایسی  سیلیں جاتے موسم میں لگائی جاتی ہیں جب نیا موسم شروع ہورہا ہوتا ہے اور جانے والے موسم کی مطابقت کی اشیا غیر ضروری ہوجاتی ہیں۔ سیاسی تحریکوں کے بھی کچھ موسم بن چکے ہیں۔ مارچ تو شاید اپنے معتدل موسم کی وجہ سی گزشتہ کئی سالوں سے احتجاج کا مہینہ بن چکا ہے۔ اور پھر عید کے بعد کا موسم، اکثر آپ نے کسی نہ کسی کی جانب سے عید کے بعد بڑی تحریک شروع کرنے کے اعلانات سنے ہوں گے اب چونکہ مارچ اور رمضان ایک ساتھ آرہے ہیں اس لئے مارچ والی تحریکیں بھی عید کے بعد ہی چلی گئی ہیں۔ کیونکہ پھر ایک دو  ماہ بعد شدید گرمی کا موسم، پھر بڑی عید اور پھر محّرم۔ یعنی کئی مہنیوں کا بریک آسکتا ہے تو اس سے پہلے کوئی تحریک شروع کردی جائے تو مناسب ہی ہے۔ ہمارے یہاں احتجاج تحریکوں کی کامیابی کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ احتجاج کرنیوالوں کو کوریج ملتی ہے میڈیا والوں کو ریٹنگ اور عوام کو طفل تسلی۔ پورے دو سال قبل ایک تحریک پوری طرح کامیاب ہوئی جس نے حکومت والوں کو باہر کرکے باہر والوں کو اقتدار میں لا بٹھایا ،لیکن یہ تحریک، عدم اعتماد کی تھی جو ایوان کے اندر سے اٹھی اور اندرونی تبدیلی کا باعث بنی،اب عید کے بعد پھر احتجاجی تحریک کے اعلان ہوگئے ہیں اور یہ ہے انتخابی دھاندلی کیخلاف۔ 
 ویسے ہمارے یہاں کچھ چیزیں سدا بہار ہوگئی ہیں جن میں دھاندلی ، مہنگائی وغیرہ شامل ہیں۔ الیکشن ختم ہونے کے ایک ڈیڑھ سال تک دھاندلی چلتی ہے اور پھر مہنگائی آجاتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ احتجاج آخر کس کے خلاف ہوتا ہے۔ دھاندلی کوئی ثابت نہیں کرپاتا اور مہنگائی ختم کرنے کا کسی کے پاس کوئی حل نہیں۔ مہنگائی کے خلاف احتجاج میں آئی ایم ایف کو برا بھلا کہنے والے حکومت ملنے پر خود آئی ایم ایف کے در ہر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر ایک آدھ ارب ڈالرز کیلئے جیسا آپ کہیں ویسا ہوگا کی ضمانتیں دی جانے لگتی ہیں۔ رہی بات دھاندلی کی تو اس تحریک کا اختتام ہمیشہ اس اتفاق رائے پر ہوجاتا ہے کہ اصلاحات کی جائیں گی۔ وہ کر بھی دی جاتی ہیں لیکن اگلے انتخابات کے بعد پھر دھاندلی دھاندلا بن جاتی ہے۔
 اس بار پھر عید کے بعد دھاندلی کیخلاف تحریک شروع ہونے جارہی ہے، ایک بار پھر یہ احتجاج کس کے خلاف ہوگا سمجھ نہیں آتی،اگر دھاندلی ہوئی تو کوئی ثبوت بھی ہوں گے اور اگر ثبوت ہیں تو وہ عدالتوں میں ہی ہیش ہوں گے سڑکوں پر نہیں۔ 2014ء کے تاریخی چار ماہ کے ‘‘شعور ‘‘دینے والے دھرنے کے بعد بھی تو معاملہ عدالتی تحقیقات میں ہی گیا تھا جہاں تمام وہ دعوے غلط ثابت ہوگئے جن کی بنیاد پر احتجاج کیا گیا۔ اب پھر زیادہ سے زیادہ وہی ہوسکتا ہے۔ عدالتی کمیشن۔ تو اس مطالبے کو پارلیمان کے اندر آواز اٹھا کر منوایا جاسکتا ہے۔ شاید ہی کوئی جماعت ہوگئی جو اس مطالبے کی مخالفت کا جواز پیدا کرے۔ تو پھر احتجاج پر کروڑوں روپے لگا کر ملکی معیشت کا اربوں کا نقصان کرنے کا فائدہ کیا۔ اگر سیاسی جماعتیں صرف عوام کیلئے احتجاج کرتی ہیں تو موجودہ معاشی صورتحال میں احتجاج نہ کرنا ہی عوام کیلئے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ احتجاج سے حکومت گرنے والی نہیں، آپ کا مبینہ مینڈیٹ جو بڑھتے بڑھتے دو سو کے قریب پہنچنے والا ہے کوئی ویسے ہی اٹھا کر آپ کو دینے والا نہیں۔ یہ سب جانتے بوجھتے احتجاج کیوں، آپ مان لیں آپ نے غلطیاں کیں، مان لیں دو سال پہلے حکومت جانے کے بعد آپ کو اسمبلیاں نہیں چھوڑنی چاہیئں تھیں، مان لیں آپ کو اقتدار جانے کے بعد امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم چلانے کی بجانے ایوان کے اندر رہ کر اپنا اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ مان لیں آپ کو صوبائی اسمبلیاں نہیں توڑنی چاہئیں تھیں۔ مان لیں آپ کو پارٹی انتخابات بروقت کرا لینے چاہئے تھے۔ مان لیں آپ کو سیاسی اور انتخابی اتحاد کرتے ہوئے قانونی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔ اور یہ بڑی بڑی غلطیاں نہ کرتے تو آج آپ حکومت میں ہوتے۔ اب اگر اس سب کے باوجود اکثریت حاصل کرکے بھی آپ حکومت نہ بنا سکے تو غلطیاں تسلیم کریں ،  اپنی اصلاح کریں اور اپنے وقت کا انتظار۔ برینڈز اپنی سیل میں چیزیں چاہے ستر ستر فیصد تک سستی کردیں ایک کے ساتھ دو دو بھی فری میں دینا شروع کردیں، یقین مانیں وہ اپنا نقصان کبھی نہیں کرتے۔ ویسے ہی احتجاجی تحریکوں میں عوام کے جذبات کی کتنی بھی ترجمانی کیوں نہ کرلی جائے فائدہ احتجاج کرنے والوں کا ہی ہوگا۔ عوام کو اسی طرح کی تسلی ہوگی جیسے آدھی قیمت پر سیل میں خریداری کرکے ،اب یہ قیمت تو اسی کی مقرر کردہ ہے ناں جس کے یہاں سے آپ نے خریداری کی۔  آپ کو کیا معلوم اصل قیمت وہی تھی جو آپ کو بتائی گئی  یا قیمت بڑھا کر سیل کا لالچ دیکر آپ سے اصل والی قیمت ہی وصول کرلی گئی تو برینڈز کی سیل ہو یا احتجاج  تحریکوں کی لوٹ سیل۔ جانے سے پہلے سوچ سمجھ لیا کریں کہ کوئی اپنے فائدے کیلئے تو آپ کو  نہیں لوٹ رہا۔

ای پیپر دی نیشن