آغا حشر ایک خان صاحب کا قصہ سناتے ہیں جو ان کے علاقے میں بڑی ثابت قدمی سے (لفظ ڈھٹائی احتیاطاً استعمال نہیں کیا) ہینگ بیچا کرتے تھے۔ کوئی خریدار ہو یا نا ہو وہ اپنا کام کئے جاتے تھے۔ ’’اینگ لے لو‘‘ کی صدا لگاتے کبھی بہت بھنا جاتے تو قریب سے گزرنے والے کی شامت آ جاتی اسے روکتے اور ارشاد فرماتے…
’’خو‘‘ ہم اتنی دور سے تمہارے واسطے اینگ لایا کیا تمہارے باپ کا نوکر ہے خریدو اسے‘‘
75 برسوں میں ہمیں بھی زیادہ تر ایسے پالیسی ساز اور اقتدار پر براجمان کرم فرما ہی ملے جو چاہے نہ چاہے اپنی مرضی اور مفاد کی ہینگ ہمارے نتھنوں میں گھسیڑنے کی کوشش کرتے رہے ہیں بلکہ تواتر سے گھسیڑنے میں مگن ہیں۔ صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ قرض اور فرضی سیاسی منشوروں اور ناجائز مداخلتوں کی اس ہینگ نے ہمارا دو قدم چلنا بھی محال کر دیا ہے۔ لیکن مقدار ہے کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے اور کڑا وقت ہے کہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے جیسے بھاری پتھر کی ایک سل کسی مقام پر پہنچانے کے بعد معلوم ہو کہ ابھی تو اس سے بھی بھاری پتھر کہیں اور لے جانا ہے اور مزید کڑا وقت ابھی آنا ہے۔
ایک ہم ہیں جن کا یہ حال ہے کہ کوئی حال ہی نہیں اور دوسری طرف عالمی ماہر معیشت تھامس پکٹے کی دنیا ہے جس کا احوال وہ اپنی کتاب ((Brief history of equality) ) میں بیان کرتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں طبقاتی تقسیم کم ہوتی جا رہی ہے۔ یعنی جہاں قومیں سیاسی اور معاشی طور پر آگے بڑھ رہی ہیں وہاں عام آدمی کو بھی قدم سے قدم ملا کر ساتھ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ طبقاتی تقسیم کی شرح گو بہت زیادہ رفتار سے نہ سہی بہرحال کم ضرور ہو رہی ہے۔ ان ملکوں میں قابل عمل مستقل مزاجی پر مبنی صنعتی، تجارتی، معاشی اور سیاسی پالیسیاں اپنائی جا رہی ہیں۔ وہاں انکم سپورٹ سکیمیں، رقم، راشن تقسیم کرنے کے منصوبے اور لنگر خانے جیسی پالیسیوں کا کوئی تصور نہیں (سبسڈیز ہیں تو ان کی نوعیت مختلف ہے) بلکہ عوام کو خود انحصاری کا نوالہ کھلانے پر توجہ دینے کا عمل پوری شدت سے جاری رہتا ہے۔
ہماری بے ڈھنگی اور ڈراؤنی پالیسیوں کا تسلسل ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ ناقص پالیسیاں کبھی بہتری کی طرف تو نہیں لے جا سکتیں البتہ کبھی کام سے الجھتی ہیں تو کبھی عشق کے آڑے آ جاتی ہیں اور ہم دونوں کو ادھورا چھوڑ کر پنجے جھاڑ کر کسی اور ڈنگ ٹپاؤ نسخے کو آزمانے کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں غربت کی لکیر کا خوفناک عفریت روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد کو نگلتا جا رہا ہے اور حالت یہ ہے کہ عام آدمی کیلئے کڑے فیصلوں اور اشرافیہ کے واسطے عیاشیوں کا لامتناہی سلسلہ ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ فرانسیسی ملکہ اور عوام کی طرح روٹی اور کیک کی لڑائی جاری ہے۔
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا۔
ابھی بھی وقت ہے لنگر خانوں میں قیام اور مفت رقم، راشن کی عیاشی نما بیماری کو فروغ دینے کی بجائے معاشی استحکام کی دیرپا پالیسیاں اپنا لی جائیں۔ گھر گھر کاٹیج انڈسٹری لگائی جائے ماؤں بہنوں کو بھیک کی قطاروں میں خوار کرنے کی بجائے خود کفیل بنایا جائے کہ قومیں قرض کی مَے پی کر نہیں بلکہ آگ میں تپ کر کندن بنتی ہیں۔ ایسا کرنے سے ملک بھی ترقی کرے گا اور عام آدمی بھی خوشحال ہوگا۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں دوسری جنگ عظیم میں ایٹم بموں سے تباہی کے دہانے پر پہنچ جانے کے باوجود جاپان نے ایسے ہی ترقی کی ہے اور اب بنگلہ دیش بھی اسی پر عمل کرکے آگے بڑھ رہا ہے۔
دوسرا کام عوام کو شفاف سیاسی ماحول دینا ہے۔ یاد رکھیں سدا بادشاہی صرف اللہ ہی کی ہے تو پھر اپنے بچوں اور انکے بچوں کی بادشاہی کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں بلکہ تمام ہم خیال لوگوں کیلئے آگے بڑھنے کے یکساں مواقع نہ صرف ملک بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی پیدا کریں۔ بچوں کے ذریعے نام چلانے کی بجائے دنیا میں نام کمانے کی کوشش کریں۔
تیسرا مرض ادارہ جاتی مداخلت ہے۔ سب اپنا اپنا کام کریں پھر جب ہم اپنا کام ہی بہتر نہیں کر پاتے تو یہ کیسے سمجھ بیٹھتے ہیں کہ دوسرے کے کام میں مداخلت کرکے اسے درست سمت کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ جب آپ اپنے کام پر توجہ نہیں دیتے تو دوسروں کی برائیاں ہی تلاش کر سکتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا… یہ مثبت سوچ نہیں بلکہ فاشزم ہے۔ دماغ کے اس خلل سے نجات ضروری ہے کیونکہ اصل خلل عشق نہیں بلکہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ اب یہ سوال پوچھا جائے گا کہ یہ سب جو اتنی آسانی سے بیان کیا جا رہا ہے ہو گا کیسے اور کون کرے گا۔ بظاہر واقعی یہ مشکل کام لگتا ہے لیکن اگر ہم ایک بار ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں کہ جس شاخ پر بیٹھے ہیں اسے ہی کاٹ لیا تو انجام کیا ہوگا؟ سر ماتھے پر بٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا، نخرے اٹھانے اور اقرباً پروری کے واسطے بھی کوئی جگہ نہیں ملے گی بقول تھامس ہابز، ریاست ہی نہ رہے تو شہری بے آسرا ہو جاتے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں رہتا۔ اشرافیہ کے کچھ لوگ سوچ سکتے ہیں کہ بیرون ملک چلے جائیں گے تو ان سے زیادہ غلطی پر کوئی نہیں۔ ارے ناسمجھو! ملک ہوگا تو عزت ہوگی بیرونی دنیا بھی برداشت کرے گی ایسے لوگوں کو مت بھولیں جن کے سرپر ملک کا آسرا نہیں رہا یا جنہیں ملک نے بھلا دیا تو پھر ان کا کیا حال ہوا۔ ملک اور ریاست نہ ہو تو چندر گپت موریا سے لیکر مغل بادشاہ ہمایوں تک سب کو دردر ٹھوکریں ہی کھانا پڑتی ہیں۔ خزانے دھر لئے جاتے ہیں اور پشیمانیوں کی کالک منہ پر مل دی جاتی ہے۔
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔
ایک بزرگ روزانہ دعا کرتے کہ اقتدار مل جائے تو وہ خدا کی مخلوق کی بہت خدمت کرینگے سب کو ہر ممکن سہولتیں دیں گے لیکن دعا تھی کہ قبول ہونے میں ہی نہیں آتی تھی۔ پاس بیٹھے چیلے نے مایوس ہوکر منہ ہی منہ میں اس کے الٹ دعا کرنا شروع کر دی۔ آہستہ آہستہ حوصلہ اتنا بڑھا کہ بزرگ دعا کرتے تو چیلا سامنے بیٹھ کر انٹ شنٹ بولنے لگتا۔ ایک روز بزرگ نے غصہ میں آکر اسے نکال دیا۔ چیلا مارا مارا پھرتا ہوا ایک قصبے میں پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسے بتایا کہ ہمارا بادشاہ انتقال کرگیا ہے اور ہم نے سوچا تھا کہ آج جو شہر میں سب سے پہلے داخل ہوگا اسے بادشاہ بنا لیں گے۔ چیلے میاں کو جو اپنی دعا قبول ہوتی دکھائی دی تو شادی مرگ والی کیفیت طاری ہو گئی۔ پہلی رات سوچا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ رعایا کی خدمت میں عظمت ہے لیکن میں نے تو دعائیں ہی کچھ اور کی تھیں۔ اب مجھے حکومت ملی ہے تو میں انہی پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھوں گا جو میرا منشور تھا۔ یعنی خلق خدا کو مشکلات، مصائب اور پریشانیوں میں مبتلا رکھنا۔ مفت ملی حکمرانی والے اس چیلے نے ایسا ہی کیا اور کچھ ہی برسوں میں اس خوشحال ملک کا بیڑا غرق کر دیا۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے ’’چیلا نما‘‘ پالیسی سازوں سے محفوظ رکھے اور ملک پر بزرگ والی سوچ کے حامل لوگوں کو صاحب اختیار بنا دے۔ (آمین)
٭…٭…٭