کراچی میں ”ٹارگٹ کلنگ“ اور”سناپٹر فائرنگ“ سے غریب، نادار، معصوم اور بے گناہ انسانوں کو جس بے دردی اور بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ اس پر پورا ملک مضطرب ہے اور خون کے آنسو بہا رہا ہے۔ گزشتہ ایک روز کسی قاتلانہ واردات کے بغیر گزر گیا تو میرے محلے کی مسجد میں نماز تراویح کے بعد امام صاحب نے نوافل شکرانہ ادا کئے اور کراچی کی دائمی امن و آشتی کےلئے دعا کی۔ کراچی جو ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر اور قومی معیشت کا رکن اعظم ہے کبھی امن و آشتی کا گہوارہ ہوتا تھا۔ راتیں روشنیوں اور مسرتوں سے معمور ہوتی تھیں، غریب بستیاں، امیر بستیوں سے زیادہ پررونق، محفوظ اور داخلی و خارجی طمانیت کا مظہر نظر آتیں تھیں لیکن اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔ امیر بستیوں میں بجلی اور گیس کے اس قدر شدید بحران میں بھی قمقمے جل رہے ہیں، غریب بستیاں لہو میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ کلاشنکوف بردار غنڈے اور دہشتگرد دندناتے پھرتے ہیں اور جس راہ پرچلتے مسافر کو چاہیں گولی کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ قریباً ڈیڑھ کروڑ آبادی کے اس شہر میں مختلف صوبوں، قومیتوں، ثقافتوں، زبانوں اور عقیدوں کے لوگ رہتے ہیں۔ کارخانہ داروں کا یہ صنعتی شہر باہر سے آنےوالے لاکھوں لوگوں کو پناہ اور روز گار فراہم کرتا ہے۔
کبھی یہ شہر اتفاق، اتحاد، یکجہتی، تحمل اوربرداشت کی مثال شمار ہوتا تھا لیکن اب ٹارگٹ کلنگ، گینگ دار، سناپٹر کلنگ اور عدم تحمل کا ایسا مرکز بن چکا ہے جس کے گنجان آباد علاقے لہو میں ڈوبے ہوئے ہیں ہر روز لاشیں گرائی جا رہی ہیں۔ امن و امان قائم کرنے اور قانون نافذ کرنےوالے موقعہ پر موجود بھی ہو ں تو دہشت گردوں کو پکڑنے اور قانون کے شکنجے میں لینے سے گریز کرتے ہیں۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ قاتل واردات کر کے راہ فرار اختیار کر جاتے ہیں اگر کوئی پکڑا جائے تو اسے اقتدار پر قبضہ کرنےوالے سیاستدان ایک ٹیلی فون کال پر چھڑا لیتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ ربع صدی سے زیادہ عرصے میں کسی سماج دشمن امن شکن، دہشت گرد کو عدالت سے سزا نہیں ہوئی، کسی قاتل کو پھانسی پر نہیں چڑھایا گیا۔ قید خانے کراچی کے قاتلوں سے خالی ہیں۔
ایک اندازے کےمطابق منتخب عوامی حکومت کے گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران کراچی میں ساڑھے پانچ ہزار افراد مارے جا چکے ہی۔ ہنستے بستے گھروں کو اجاڑا جا چکا ہے اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف کراچی پر نہیں پورے ملک پر آسیب کا سایہ ہے۔ جہاں بظاہر امن نظرآتا ہے، وہاں بھی عوام خوف و ہراس میں غلطاں ہیں‘ جو شخص گھر سے باہر جاتا ہے، جب تک بحفاظت واپس نہ آ جائے افراد خانہ کی طمانیت نہیں ہوتی۔ ملک میں حکومتی ادارے موجود ہےں لےکن ”گورننس“ کی حالت ےہ ہے کہ حکومت کی رٹ (Writ) کہےں نظر نہےں آتی، ہر شخص خود مختار ہے اور اس کا قانون اسکی مرضی ہے جو وہ بلاتامل استعمال کررہا ہے۔
پورے پاکستان مےں حکومت کی ےہ بدنظمی بدانتظامی، لاقانونےت اور عوامی مسائل ےعنی روزافزوں گرانی، افراط زر، بجلی اور گےس کے شٹ ڈاو¿نز عوام کےلئے پرےشان کن ہے لےکن جو کچھ کراچی نے گزشتہ ربع صدی سے زےادہ عرصے مےں دےکھا ہے وہ اس لئے اضطراب انگےز ہے کہ ےہ شہر ”وارلارڈز“ اور ”مافےا لارڈز “ کے کنٹرول مےں نظرآتا ہے جن کے انتقام کا جذبہ انتہائی بھیانک ہے راست اقدام سے نظم وضبط بحال کرنے والوں کو برسوں کے بعد حالات تبدےل ہوجانے پر ڈھونڈ نکال کر موت کے گھاٹ اتار دےتا ہے۔ بےنظےر بھٹو کے دورحکومت مےں جنرل نصےراللہ خان بابر اور کراچی پولےس کے چےف شعےب سڈل نے جو آپرےشن 1995ءمےں کےا تھا اسکے فعال کرداروں کی بوری بند لاشےں بے نظےر بھٹو کی حکومت کی معزولی کے بعد فراہم کردی گئی تھیں اور ےہ عمل جس مےں مافےا لارڈوں کا اےک پےغام موجود تھا بار بار دوہراےا جاتا رہا۔ نتےجہ ےہ ہوا کہ پولےس فورس قوت عمل سے محروم ہوکر محض تماشائی بن گئی اور ےہ غےر فعال کردار اب تک پولےس ادا کررہی ہے تو اس مےں اےک خطرناک عنصر ان سےاسی بھرتےوں نے بھی کردےا ہے جو ملازمت حکومت پاکستان کی کرتے ہےں لےکن جن کی وفادارےاں اپنی سےاسی جماعتوں اور سےاسی آقاو¿ں سے ہےں اور وہ دوسری سےاسی جماعتوں مےں اپنے دشمنوں کو پہچانتے ہےں۔
کراچی کے موجودہ تناظر مےں متحدہ قومی موومنٹ اےک خاص اہمےت رکھتی ہے اس کی پشت پر عوام ہےں اور اسکے سپرےم لےڈر کو اےک ”پےر“ کا درجہ حاصل ہے اور وہ پورے ملک کی سےاست کو رےموٹ کنٹرول سے لندن مےں بےٹھ کر متاثر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف کراچی مےں عشروں سے آباد محنت کش پشتون بھی اےک قوت بن چکے ہےں اور کوئی انہےں نظرانداز نہےں کرسکتا کہ پشتون پےدا ہوتا ہے تو اسکے کندھے پر بندوق ہوتی ہے اور اپنے قبےلے کےلئے جان قربان کرنے کا جذبہ۔ تےسری بڑی قوت پےپلز پارٹی ہے جس کا تمام تر رخ سےاست کی طرف ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے اس کا ووٹ بنک کراچی مےں مضبوط ہے ان تےنوں جماعتوں کے مقاصد الگ الگ نوعےت رکھتے ہےں لےکن صوبہ سندھ کی حکومت مےں اختلاف فکر کے باوجود تےنوں شامل رہےں، بدقسمتی کی بات ےہ ہے کہ مخلوط حکومت نے کراچی کو بدامنی لاقانونےت اور بھتہ خوری اور قتل وغارت گری کے سوا کچھ نہےں دےا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف کے دور مےں عملی طور پر اقتدار اےم کےواےم کے پاس تھا لےکن اس کے تار اےوان صدر سے ہلائے جاتے تھے۔ صدر زرداری کو ےہ رواےت ورثے مےں ملی تھی لےکن اب فعال قوت اےم کےواےم کی بجائے پےپلز پارٹی کے جےالوں کے پاس تھی جس کے صوبائی وزےرداخلہ اشتعال انگےز بےان دےنے اور کراچی کو آگ مےں جھونکنے کا موقع تلاش نہےں کرتے بلکہ وہ خود موقع پےدا کر لیتے ہےں۔ اب کراچی کے حالات ہاتھ سے نکلتے نظرآنے لگے ہےں تو سندھ حکومت کی جانب سے صدر مملکت کو اختےار دےا گےا ہے کہ وہ سےاسی قائدےن سے رابطے کرےں۔ زرداری صاحب نے بھی فرماےا ہے کہ ہر قےمت پر امن بحال کےا جائےگا۔ الطاف حسےن نے اےم کےواےم کو اےک ماہ کا راشن جمع کرنے کا نوٹس دےا تھا لےکن اب انکے نئے بےان میں لہجہ نرم ہے لےکن اےک ماہ کےلئے کراچی کو فوج کے حوالے کردےنے کا مطالبہ بھی کےا گےا ہے جس کی کامےابی سابقہ تجربات کی روشنی مےں مشکوک ہے۔ متحدہ کے لےڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ وفاقی حکومت چاہے تو کراچی مےں دو دن مےں امن قائم ہوسکتا ہے اب گےند حکومت کے کورٹ مےں ہے اور ضروری چےز کراچی کا دےرپا امن ہے جسے قائم کرنے کےلئے صدر صاحب کو نےک نیتی سے متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
کبھی یہ شہر اتفاق، اتحاد، یکجہتی، تحمل اوربرداشت کی مثال شمار ہوتا تھا لیکن اب ٹارگٹ کلنگ، گینگ دار، سناپٹر کلنگ اور عدم تحمل کا ایسا مرکز بن چکا ہے جس کے گنجان آباد علاقے لہو میں ڈوبے ہوئے ہیں ہر روز لاشیں گرائی جا رہی ہیں۔ امن و امان قائم کرنے اور قانون نافذ کرنےوالے موقعہ پر موجود بھی ہو ں تو دہشت گردوں کو پکڑنے اور قانون کے شکنجے میں لینے سے گریز کرتے ہیں۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ قاتل واردات کر کے راہ فرار اختیار کر جاتے ہیں اگر کوئی پکڑا جائے تو اسے اقتدار پر قبضہ کرنےوالے سیاستدان ایک ٹیلی فون کال پر چھڑا لیتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ ربع صدی سے زیادہ عرصے میں کسی سماج دشمن امن شکن، دہشت گرد کو عدالت سے سزا نہیں ہوئی، کسی قاتل کو پھانسی پر نہیں چڑھایا گیا۔ قید خانے کراچی کے قاتلوں سے خالی ہیں۔
ایک اندازے کےمطابق منتخب عوامی حکومت کے گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران کراچی میں ساڑھے پانچ ہزار افراد مارے جا چکے ہی۔ ہنستے بستے گھروں کو اجاڑا جا چکا ہے اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف کراچی پر نہیں پورے ملک پر آسیب کا سایہ ہے۔ جہاں بظاہر امن نظرآتا ہے، وہاں بھی عوام خوف و ہراس میں غلطاں ہیں‘ جو شخص گھر سے باہر جاتا ہے، جب تک بحفاظت واپس نہ آ جائے افراد خانہ کی طمانیت نہیں ہوتی۔ ملک میں حکومتی ادارے موجود ہےں لےکن ”گورننس“ کی حالت ےہ ہے کہ حکومت کی رٹ (Writ) کہےں نظر نہےں آتی، ہر شخص خود مختار ہے اور اس کا قانون اسکی مرضی ہے جو وہ بلاتامل استعمال کررہا ہے۔
پورے پاکستان مےں حکومت کی ےہ بدنظمی بدانتظامی، لاقانونےت اور عوامی مسائل ےعنی روزافزوں گرانی، افراط زر، بجلی اور گےس کے شٹ ڈاو¿نز عوام کےلئے پرےشان کن ہے لےکن جو کچھ کراچی نے گزشتہ ربع صدی سے زےادہ عرصے مےں دےکھا ہے وہ اس لئے اضطراب انگےز ہے کہ ےہ شہر ”وارلارڈز“ اور ”مافےا لارڈز “ کے کنٹرول مےں نظرآتا ہے جن کے انتقام کا جذبہ انتہائی بھیانک ہے راست اقدام سے نظم وضبط بحال کرنے والوں کو برسوں کے بعد حالات تبدےل ہوجانے پر ڈھونڈ نکال کر موت کے گھاٹ اتار دےتا ہے۔ بےنظےر بھٹو کے دورحکومت مےں جنرل نصےراللہ خان بابر اور کراچی پولےس کے چےف شعےب سڈل نے جو آپرےشن 1995ءمےں کےا تھا اسکے فعال کرداروں کی بوری بند لاشےں بے نظےر بھٹو کی حکومت کی معزولی کے بعد فراہم کردی گئی تھیں اور ےہ عمل جس مےں مافےا لارڈوں کا اےک پےغام موجود تھا بار بار دوہراےا جاتا رہا۔ نتےجہ ےہ ہوا کہ پولےس فورس قوت عمل سے محروم ہوکر محض تماشائی بن گئی اور ےہ غےر فعال کردار اب تک پولےس ادا کررہی ہے تو اس مےں اےک خطرناک عنصر ان سےاسی بھرتےوں نے بھی کردےا ہے جو ملازمت حکومت پاکستان کی کرتے ہےں لےکن جن کی وفادارےاں اپنی سےاسی جماعتوں اور سےاسی آقاو¿ں سے ہےں اور وہ دوسری سےاسی جماعتوں مےں اپنے دشمنوں کو پہچانتے ہےں۔
کراچی کے موجودہ تناظر مےں متحدہ قومی موومنٹ اےک خاص اہمےت رکھتی ہے اس کی پشت پر عوام ہےں اور اسکے سپرےم لےڈر کو اےک ”پےر“ کا درجہ حاصل ہے اور وہ پورے ملک کی سےاست کو رےموٹ کنٹرول سے لندن مےں بےٹھ کر متاثر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف کراچی مےں عشروں سے آباد محنت کش پشتون بھی اےک قوت بن چکے ہےں اور کوئی انہےں نظرانداز نہےں کرسکتا کہ پشتون پےدا ہوتا ہے تو اسکے کندھے پر بندوق ہوتی ہے اور اپنے قبےلے کےلئے جان قربان کرنے کا جذبہ۔ تےسری بڑی قوت پےپلز پارٹی ہے جس کا تمام تر رخ سےاست کی طرف ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے اس کا ووٹ بنک کراچی مےں مضبوط ہے ان تےنوں جماعتوں کے مقاصد الگ الگ نوعےت رکھتے ہےں لےکن صوبہ سندھ کی حکومت مےں اختلاف فکر کے باوجود تےنوں شامل رہےں، بدقسمتی کی بات ےہ ہے کہ مخلوط حکومت نے کراچی کو بدامنی لاقانونےت اور بھتہ خوری اور قتل وغارت گری کے سوا کچھ نہےں دےا۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف کے دور مےں عملی طور پر اقتدار اےم کےواےم کے پاس تھا لےکن اس کے تار اےوان صدر سے ہلائے جاتے تھے۔ صدر زرداری کو ےہ رواےت ورثے مےں ملی تھی لےکن اب فعال قوت اےم کےواےم کی بجائے پےپلز پارٹی کے جےالوں کے پاس تھی جس کے صوبائی وزےرداخلہ اشتعال انگےز بےان دےنے اور کراچی کو آگ مےں جھونکنے کا موقع تلاش نہےں کرتے بلکہ وہ خود موقع پےدا کر لیتے ہےں۔ اب کراچی کے حالات ہاتھ سے نکلتے نظرآنے لگے ہےں تو سندھ حکومت کی جانب سے صدر مملکت کو اختےار دےا گےا ہے کہ وہ سےاسی قائدےن سے رابطے کرےں۔ زرداری صاحب نے بھی فرماےا ہے کہ ہر قےمت پر امن بحال کےا جائےگا۔ الطاف حسےن نے اےم کےواےم کو اےک ماہ کا راشن جمع کرنے کا نوٹس دےا تھا لےکن اب انکے نئے بےان میں لہجہ نرم ہے لےکن اےک ماہ کےلئے کراچی کو فوج کے حوالے کردےنے کا مطالبہ بھی کےا گےا ہے جس کی کامےابی سابقہ تجربات کی روشنی مےں مشکوک ہے۔ متحدہ کے لےڈر ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا کہ وفاقی حکومت چاہے تو کراچی مےں دو دن مےں امن قائم ہوسکتا ہے اب گےند حکومت کے کورٹ مےں ہے اور ضروری چےز کراچی کا دےرپا امن ہے جسے قائم کرنے کےلئے صدر صاحب کو نےک نیتی سے متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔