مےرے والد مخدوم سےّد علمدار گےلانی .... (۳)

سید یوسف رضا گیلانی (وزیراعظم پاکستان)
کچھ عرصہ بعد بلدیاتی انتخابات میں چچا حامد رضا وائس چیئرمین ڈسٹرکٹ بورڈ، ملتان کے عہدے کیلئے امیدوار بن گئے۔ نواب صاحب نے والد کو کہلوا بھیجا کہ آپ اپنے چھوٹے بھائی سید رحمت حسین کو اپنا امیدوار بنائیں ورنہ آپکے کزن حامد رضا کو نہیں بننے دوں گا۔ والد نے انکار کردیا تو نواب صاحب نے ہمارے خاندان کےساتھ تمام تعلقات کوپس پشت ڈال کر چچا حامد رضا کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ گیلانی گروپ کے سیاسی حریف صادق حسین قریشی کو اس عہدے پر بلامقابلہ منتخب کروا دایا جس پر والد نواب صاحب سے ناراض ہوگئے کیونکہ انکے اس اقدام سے گیلانی گروپ کو سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچا۔
نواب صاحب نے چچا حامد رضا کو قائل کیا کہ میرے پیر یعنی اپنے کزن علمدار حسین گیلانی کی مجھ سے صلح کروا دیں۔ چچا نے والد کو نواب صاحب کی دعوت پر لاہور جانے کیلئے آمادہ کیا اور انکے ہمراہ جب ملتان ائرپورٹ پر پہنچے تو جہاز جا چکا تھا۔ ملک غلام مصطفیٰ کھر ان دنوں قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ انہوں نے میرے والد اور چچا کو پیشکش کی کہ میں آپ کو اپنی کار میں لاہور لے جاتا ہوں۔ انہوں نے نہایت تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے چند گھنٹوں میں گورنر ہاﺅس لاہور پہنچا دیا۔ والد اور چچا، نواب صاحب سے ملاقات کرنے گورنر ہاﺅس کے اندر چلے گئے اور کھر صاحب باہر انتظار کرتے رہے۔ اس وقت کھر صاحب کے ذہن میں بھی نہ ہوگا کہ کبھی وہ بھی اسی گورنر ہاﺅس میں بطور گورنر پنجاب موجود ہوں گے۔2005 ءمیں کھر صاحب جب مجھے ملنے سنٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی آئے تو میں نے ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق کی۔
تعلیمی میدان میں گیلانی خاندان کی بے حد خدمات ہیں۔ تایا ولائیت حسین نہ صرف بااصول سیاستدان تھے بلکہ ماہرتعلیم بھی تھے۔ انہوں نے انجمن اسلامیہ ملتان کی انتظامیہ سے ملاقات کی اور اس ادارے کی ناقص منصوبہ بندی کے بارے میں گفتگو کی۔ اس سلسلے میں انجمن اسلامیہ کا ایک ہنگامی اجلاس 2 جون1933 ءکو طلب کیا گیا۔ اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خسارے میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی باگ ڈور تایا ولائیت حسین کے سپرد کردی جائے۔ تایا نے اس فیصلے کو بطور چیلنج قبول کرلیا۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی تعلیمی ادارہ نہ تھا اور دوسرے اداروں میں بھی انہیں داخلہ نہیں ملتا تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور انجمن حمایت اسلام لاہور کے بعد اس قسم کے ادارے کا قیام بہت بڑا کارنامہ تھا۔ یہ ادارہ 1884ءمیں مولوی محمد عبداللہ نے قائم کیا تھا۔
والد نے اپنے بھائیوں کےساتھ مل کر انجمن اسلامیہ ملتان کےلئے بھرپور کام کیا‘ جس کے تحت انکی زندگی ہی میں کئی سکولوں کا قیام عمل میں آیا۔ انجمن اسلامیہ کی چند تعلیمی یادگاریں گیلانی لا کالج، ولائیت حسین اسلامیہ کالج، علمدار حسین کالج، غلام مصطفیٰ شاہ گرلز کالج، شوکت حسین کے جی سکول، اسلامیہ ہائی سکول حرم گیٹ، اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ، اسلامیہ ہائی سکول دولت گیٹ اور رضا شاہ پبلک سکول ہیں۔
والد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ 1956 کا آئین بنانے والوں میں شامل تھے۔ آئین کی اہمیت اور تقدس کو ان سے بہتر کون جان سکتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کیلئے ان گنت قربانیاں دی ہوں۔ آئین پاس ہونے پر انہوں نے تمام اراکین کےساتھ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ننگے پاﺅں انکے مزارپر حاضری دی۔ انکے اس عمل میں قوم کےلئے پیغام تھا کہ زندہ قومیں اپنے محسنوں سے محبت اور ان کا ادب و احترام انکی زندگی اور بعد از زندگی برقرار رکھتی ہیں۔ دنیا کی مشہور سوانح عمری \\\"The World\\\'s Who\\\'s Who 1954-55 Edition\\\" میں بھی ان کا نام شامل ہوا۔
والد 1956 ءمیں شیخ مجیب الرحمان (جو بعد میں بنگلہ دیش کے صدر بنے) اور بیگم سلمیٰ تصدق حسین (والدہ جسٹس ریاض حسین جوبعد میں میرے ساتھ بھی وفاقی کونسل کی رکن رہیں) کے ہمراہ چین کا دورہ کرنےوالے اس وفد میں شامل تھے جس نے پاک چین (Sino-Pak) دوستی کی بنیاد رکھی۔ وہ اس سال انٹر پارلیمنٹری یونین (آئی پی یو) کے رکن منتخب ہوئے، اسی حیثیت سے انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور وہاں پاکستان کو متعارف کروایا۔ اس دور کی اہم شخصیات وزیراعظم برطانیہ سرونسٹن چرچل، صدر امریکہ آئزن ہاور، صدر فرانس چارلس ڈیگال، شہنشاہ سعودی عرب عبدالعزیز، چین کی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین ماﺅ زے تنگ، چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی اور آغا خان سوئم آغا سلطان سر محمد شاہ سے بھی ملاقاتیں کیں۔ چلی کا دورہ کرنےوالوں میں وہ پاکستان کے پہلے چند اراکین پارلیمنٹ میں سے تھے۔ اسی سال والد نے عراقی فضائیہ کی سلور جوبلی تقریبات میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
اکتوبر1958 ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کیا اور 1956 ءکا آئین معطل کردیا۔ ’تحریک پاکستان‘ کے کارکنوں اور چوٹی کے سیاستدانوں کو ایبڈو کے ذریعے نااہل کردیا گیا۔ اس بدنام زمانہ قانون کی زد میں آنے والوں میں حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین، آئی آئی چندریگر، فیروز خان نون، خان عبدالقیوم خان، میاں ممتاز دولتانہ، محمد خان لغاری، کرنل (ر) عباد حسین، سید حسن محمود، ایوب کھوڑو، پیر الٰہی بخش ، جی ایم سید، قاضی علی اکبر، قاضی عیسیٰ اور کئی دیگر رہنماﺅں کے علاوہ میرے والد بھی شامل تھے۔ ایوب خان نے ایبڈو کے ذریعے بیک جنبش قلم سب کو بدیانتی کے بلاثبوت الزام کے تحت نااہل قرارد دے دیا اور یوں سیاست کے میدان میں صف اول کے رہنماﺅں کو پیچھے دھکیل دیئے جانے سے ایسا خلا پیدا ہوا جس نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ یہ قانون سات سال تک نافذ رہا۔
طویل مارشل لا اور نت نئے تجربوں نے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کردیں۔ اس سیاہ عہد میں مقبول ترین شخصیتوں اور جماعتوں کو کمزور کردیا گیا۔ بنیادی جمہوریت کی آڑ میں فرد واحد کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی اور تمام معاملات و اختیارات ایک ہی ذات میں یوں مرکوز کردیئے گئے کہ بقول شخصے ایوب خان کی مثال لائل پور (فیصل آباد) کے گھنٹہ گھر جیسی تھی ، جدھر سے بھی آﺅ سامنے پاﺅ۔ اس دور میں اداروںکو پامال کیا گیا، لوگوں کے حقوق غصب کئے گئے اور عام انتخابات کی بجائے بی ڈی سسٹم کے تحت انتخابات کروائے گئے۔ ان انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح جیسی ہستی کو بدترین انداز میں شکست دلائی گئی اوریوں ملک کو متحد رکھنے کا آخری موقعہ بھی ضائع کردیا گیا۔ عوام کے احساس محرومی میں اضافے کے باعث عوامی ردعمل شدید تر ہوتا چلا گیا۔ مغربی اور مشرقی صوبوں کے درمیان طبقاتی فاصلے بڑھتے گئے، یگانگت ختم ہوگئی اور بالآخر ملک دولخت ہوگیا۔ والد کےلئے سقوط ڈھاکہ کا صدمہ اتنا گہرا تھا کہ وہ کئی راتیں بہت مضطرب رہے اور سو نہ سکے۔ (جاری)
محمد خان لغاری، والد سے اکثر کہا کرتے تھے کہ آپ کےخلاف ریفرنس بنے گا جب والد اور لغاری صاحب ایبڈو کا شکار ہوگئے تو ایک دن وہ والد سے ملنے کیلئے ملتان آئے۔ والد حسب سابق اپنی چٹوں پر عوام کے کام کر رہے تھے۔ لغاری صاحب حیران ہوئے اور کہا کہ مخدوم صاحب! آپکی چٹیں آج بھی چل رہی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اپنے دوراقتدار میں کام کئے ہیں اور مجھے نااہل کردیا گیا ہے۔ پھر ازراہ مذاق کہا کہ آپ نے تو کوئی کام بھی نہیں کیا اور پھر بھی ایبڈو ہوگئے، آپ سے تو پھر میں ہی بہتر رہا۔
صدر ایوب خان نے والد کی پہلی ملاقات ایبڈو کے تحت نااہلی کے دوران ماموں حسن محمود کے ہاں رحیم یار خان میں شکار کے موقعہ پر ہوئی۔ صدر ایوب نے ان سے دریافت کیا کہ آپ ہم سے ملاقات کیوں نہیں کرتے؟ والد نے جواب دیا کہ ہم مسترد شدہ لوگ ہیں، آپ نے ہمیں سیاست سے باہر کیا ہے، ہمیں آپ نے دنیا سے باہر کیوں نہیں کردیا۔ صدر ایوب خان یہ سن کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے کہ میں چرچل کا بڑا مداح ہوں اور بقول اس کے\\\"The grass grows on the battle field but on the scaffold, never.\\\"
ترجمہ: گھاس میدان جنگ میں تو اگ سکتی ہے لیکن پھانسی گھاٹ پر کبھی نہیں۔
صدر ایوب نے مزید کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ ہر آنےوالا ہر جانےوالے کو پھانسی پر لٹکا دے جس سے ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجائے۔
ایبڈو کی مدت ختم ہونے پر والد نے 1970 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ ملتان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے صادق حسین قریشی کے مقابلے میں مسلم لیگ (قیوم گروپ) کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیا۔ چچا حامد رضا نے شجاع آباد سے رانا تاج احمد نون اور چچا فیض مصطفی نے ملتان شہر سے شیخ اکبر قریشی کے مقابلے میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ یہ زمانہ پیپلز پارٹی کے عروج کا تھا جس کی تیز آندھی کے سامنے کئی برج الٹ گئے جن میں والد اور چچا حامد رضا بھی شامل تھے۔ چچا فیض مصطفی تقریباً دو سو ووٹوں کی برتری سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ صرف دو روز قبل ہی اسی حلقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔
میں نے ہمیشہ والد کو اپنے بھائیوں کے ہمراہ عید میلادالنبی کے مرکزی جلوس، دس محرم الحرام اور ہر جمعرات کو دربار حضرت پیر پیراں موسیٰ پاک شہید پر حاضری دیتے دیکھا۔ وہ ہر جمعرات کو بڑی ہمشیرہ کے پاس جاتے اور رات کا کھانا خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر کھاتے، یہیں پر خاندان کے اکثر معاملات اورمسائل پر گفتگو ہوتی ۔ یہ سلسلہ خاندان میں اتفاق قائم رکھنے کا موجب تھا۔
میرے آبائی گھر پاک دروازہ کے قریب ایک چھوٹی سی دکان ہے جس میں عرصہ دراز سے تھومی نہایت لذیز سری پائے پکاتا ہے اور دور دراز سے لوگ اس کا پکا ہوا کھانا لینے آتے ہیں جو والد کو بھی بہت پسند تھا اور وہ اپنے دوستوں کو بھی یہ کھانا کھلاتے تھے۔ والد کی وفات پر تھومی نے بطور نیاز کھانا غریبوں میں تقسیم کردیا۔
والد کے دوستوں میں جن سے انکی اکثر ملاقات رہتی تھی، ملک اللہ بخش ، ملک احمد بخش ، منظور احمد قریشی، ملک قادر بخش بنڈھل، خلیفہ عبدالغفار، حافظ اکرام الٰہی، شیخ خورشید احمد، دلاور حسین قریشی، میاں محمود حسین قریشی، ملک بشیر احمد، ذوالفقانر علی گیلانی، ہاشم علی گیلانی، ملک غلام محبوب لابر، ملک حضور بخش کھوکھر، حکیم فدا حسین، ڈاکٹر محمد حسین ملک، خواجہ عبدالکریم، قاصف، مولوی منظور حسین احقر، مولوی محبوب احمد اویسی، پروفیسر عبدالقدوس اور روزنامہ نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر شیخ ریاض پرویز شامل تھے۔
والد کے قریبی دوستوں میں مخدوم راجن بخش گیلانی کے بیٹے پھوپھا سید عبداللہ شاہ بھی شامل تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت والد کے ساتھ گزرتا تھا۔ ایک مرتبہ پھوپھا نے لاہور سے ملتان ٹرین کے سفر کا اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ان دنوں مسافروں کا معمول ہوتا تھا کہ اپنے سوٹ کیس پر اپنا نام مع القاب و ڈگری لکھا کرتے تھے۔ پھوپھا کم تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے اپنے سوٹ کیس پر تحریر کروا رکھا تھا:
I.S.P.G. Multan
انکے کمپارٹمنٹ میں ایک انگریز افسر بھی سفر کر رہاتھا۔ اس نے پھوپھاسے دریافت کیا کہ آپکے سوٹ کیس پر کون سی ڈگری لکھی ہوئی ہے۔ پھوپھا بڑی معصومیت سے بولے کہ اس کا مطلب ہے Inside Pak Gae Multan۔ یہ ان کے گھر کا پتہ تھا۔
والد کو لاہور بہت پسند تھا۔ وہ جب بھی لاہور جاتے تو داتا دربار حاضری ضرور دیتے تھے۔ کبھی کبھار دربار میاں میر پر بھی حاضری کےلئے جاتے تھے۔ کئی مرتبہ میں بھی انکے ہمراہ گیا۔ وہاں پر میری ممانی رضیہ حسن محمود کا مزار بھی ہے۔ ممانی رشتہ میں فاروق لغاری کی پھوپھی اور سابق وفاقی وزیر بیگم عفیفہ ممدوٹ کی ہمشیرہ تھیں۔ مجھے زمانہ طالب علمی ہی سے والد لاہور کے اپنے چیدہ احباب سے روشناس کرواتے رہے جن میں صاحبزادی محمودہ بیگم، ملک محمد اختر ، چوہدری یوسف علی اور سید شبیر شاہ (ایم این اے میجر (ر) تنویر حسین سید کے والد ) قابل ذکر ہیں۔
والد ہمیشہ تین رمضان المبارک کواپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرتے اور کہتے کہ یہ بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ولادت کا دن ہے۔ اس دن اپنے دوستوں کو مدعو کرتے اور ان کی خوب تواضع کرتے تھے۔ زندگی بھر انہوں نے اس روایت کو نہایت محبت و شوق سے نبھایا۔ اتفاق ہے کہ وہ اسی دن یعنی 3 رمضان المبارک مورخہ 9 اگست 1978ءکو نشتر ہسپتال، ملتان میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
انکی اس دن سے عقیدت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں انکی برسی کا اہتمام تین رمضان المبارک ہی کو کرتا ہوں۔ میں نے جب پہلی مرتبہ ان کی برسی محدود جگہ اور ٹریفک کے مسئلہ کی بنا پر دربار کی بجائے اپنی رہائش گاہ ’گیلانی ہاﺅس‘ پر منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت سجادہ نشین تایا مخدوم شوکت حسین نے برا منایا کہ یہ تبدیلی خاندانی روایات کے برعکس ہے۔ تاہم وقت نے ثابت کیا کہ میرا فیصلہ درست تھا۔ والد باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک روز قبل انہوں نے ڈائری میں یہ شعر لکھا:
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
(چاہ یوسف سے صدا سے انتخاب)

ای پیپر دی نیشن