لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران وزارت داخلہ نےعدالت عظمی کوبتایا ہےکہ حساس اداروں نےلاپتہ افراد حراست میں ہونے کے الزام کی تردید کی ہے

لاپتہ افراد کیس کی سماعت جسٹس شاکراللہ جان کی سربراہی میں سرمد جلال عثمانی اور جسٹس جواد ایس خواجہ پرمشتمل تین رکنی بینچ نے کی۔ وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کی جانےوالی رپورٹ کوپڑھ کرسناتے ہوئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے کے آغا نے بتایا کہ ایک سو پینتیس لاپتہ افراد کی تلاش کی جارہی ہے جبکہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے نام پربے بنیاد پراپگنڈاہ کیا جارہا ہے۔ کیس میں لاپتہ افراد حساس اداروں کی حراست میں ہونے کی درخواست کی سماعت پروزارت داخلہ سے جواب طلب کیا گیا جس پروزارت داخلہ کے حکام نے حساس اداروں کی جانب سے بتایا کہ ان کی حراست میں کوئی بھی لاپتہ شخص نہیں ہے۔لاپتہ افراد کمیشن کی تشکیل کے بارے میں عدالتی استفسارپرکے کے آغا نے بتایا کہ ایک ہفتے میں کمیشن کے چیئرمین کا تقررکرکے اس کی تشکیل مکمل کردی جائے گئی جبکہ لاپتہ افراد کیس میں درخواست گزارآمنہ مسعود جنجوعہ نے کمیشن پرتنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب حکومت کی بےکارباتیں ہیں اورلاپتہ افراد کی تلاش میں کمیشن اب تک کارآمد ثابت نہیں ہوئے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے عدالت سے استدعا کی کہ لاپتہ افراد کے سلسلےمیں عدالت قانون سازی کرے جس پرجسٹس شاکراللہ جان نے ان کی تصریح کرتےہوئے ریمارکس دیے کہ عدالتوں کا کام قانون سازی نہیں بلکہ قانون کی تشریح کرنا ہے۔ عدالت عظمی نے حکومت کوایک ہفتے میں کمیشن کی تشکیل مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے لاپتہ افراد کیس کی سماعت سترہ اگست تک ملتوی کردی ۔
حکومتی دعوئوں کے باوجود اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ لاپتہ افراد کی تعداد میں دن بدن مسلسل اضافہ ہورہا ہے جبکہ متاثرہ خاندانوں کے افراد کا ہربارسپریم کورٹ میں یہی کہنا ہوتا ہے کہ انہیں جلد انصاف فراہم کیا جائے مگر جانے وہ وقت کب آئے گا جب ان مظلوموں کی آواز سنی جائے گی

ای پیپر دی نیشن