اِدھر مسلمان حکمران’ الخاموشی نیم رضا ‘کی پُرانی کہاوت کو آدھی رضامندی کی بجائے پوری رضامندی کا نیا مفہوم بخشنے میں مصروف ہیں اور اُدھر یورپ ہی نہیں خود اسرائیل کے اندر اسرائیل کے جنگی جرائم کیخلاف احتجاج زورپکڑنے لگا ہے- ہرچند فرانس کی حکومت نے فلسطینیوں کی حکومت میں مظاہروں پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم عوامی ضمیر ایسی پابندیوں کا احترام کرنے سے انکاری ہے- صرف ایک دِن میں پیرس کے پچاس مظاہرین کو گرفتارکیا گیا- اِس پر قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کرنیوالوں کے درمیان فساد شروع ہو گیا- اِن میں سے چند مظاہرین نے مظاہروں پر اِس سرکاری پابندی کو غیر قانونی قرار دلوانے کی خاطر عدالت سے رجوع کر لیا ہے- برطانیہ میں بھی اِن مظاہروں نے روز بروز زور پکڑنا شروع کر دیا ہے- یورپ سے آگے بڑھیں تو خود امریکہ میں مظاہروں کا سلسلہ زور پکڑنے لگا ہے- میں اِس ضمن میں آپ کی توجہ امریکہ کے فقط ایک شہرنیویارک میں ہونیوالے مظاہروں کی جانب منعطف کرنا چاہتا ہوں-اِن مظاہروں میںفلسطین کے پرچم لہراتے ہوئے امریکیوں نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو دی جانیوالی ساری کی ساری امداد ختم کر دے- اِن مظاہروں میں امریکی یہودی بھی بڑی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں- آئیے فلسطینی مسلمانوں کے حامی اِن یہودیوں کے صرف دو بینرز پر لکھے ہوئے دو فقروں کی معنویت پر غور کریں:
"Boycott Israeli Apartheid"
New York Jews Say: Not in our Name".
خود اسرائیل کے اندر روشن خیال اور انسان دوست یہودی اپنی حکومت کے جنگی جرائم کو تنقید کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں- اِس کی ایک مثال Nimrod Nir کا 16جولائی کو نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونیوالا مضمون ہے- اِس مضمون کا عنوان ”غزہ کے حق پرست“ ہے- اِس میں فلسطینیوں کی انسان دوستی اور حق پرستی کی مثالیںدیتے وقت مضمون نگار نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کو مرکزِ نگاہ بنایاہے- اُس نے اِس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں آباد فلسطینی مسلمان نے اُسے کس طرح موت کے چُنگل سے آزاد کرایا تھا: اگر وہ فلسطینی اپنی جان پر کھیل کر اُسکی جان بچانے اور انتہائی محبت سے اُسکے جسم سے بہتے ہوئے خون کے فواروں کو بند کر کے ہسپتال نہ لے آتا تو وہ موت کی گرفت سے آزاد ہو کر زندگی کی آغوش میںہرگزنہ آسکتا-
اسرائیل جس بنا پر عقل و خرد کو بالائے طاق رکھ کر غزہ میں جرمن نازیوں کے سے جنگی جرائم کے ارتکاب پر کمربستہ ہو گیا ہے وہ فلسطینیوں کی دو مختلف تنظیموں ، حماس اور الفتح کا حالیہ اتحادِ فکر و عمل ہے- حماس غزہ میں مقبول ہے تو الفتح مغربی کنارے پر- غزہ پر اِسرائیلی وحشت و بربریت نے ہر دو تنظیموں کے اتحاد کو کمزور کرنے کی بجائے اُلٹا مضبوط تر کر دیا ہے- چنانچہ مغربی کنارے پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کی لے تیز تر ہوتی چلی جا رہی ہے-آج غزہ اور مغربی کنارے کی جغرافیائی دُوری قلبی یگانگت کا رُوپ دھار چکی ہے- احتجاجی جلوسوں پر وہاں بھی مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، وہاں بھی بچوں، عورتوں اور مردوں کی لاشیں گر رہی ہیں مگر احتجاج کی لے بلند سے بلند ترہوتی چلی جا رہی ہے-
یہاں یہ بتانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کل تک حماس اور الفتح میں ایک بنیادی نظریاتی اختلاف نمایاں تھا- حماس اسرائیل کو صفحہءہستی سے مٹا دینے کے نصب العین پر کاربند چلی آ رہی ہے اور اسی بنا پر بعض مغربی ممالک اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں- اِس کے برعکس الفتح بقائے باہمی کے اصول پر اسرائیل کوبقا کا حق دیتے ہوئے اپنی بقا کے حق کو منوانے میں کوشاں ہے- ہر دو تنظیموں کے فکر و عمل میں ہم آہنگی نے حماس کو اعتدال پسندی اور الفتح کو انتہا پسندی کی معنویت سمجھنے کا موقع فراہم کر دیا ہے- اسرائیل نے اپنے تازہ ترین جنگی جرائم سے الفتح کے لیے نیا طرزِ عمل اپنانے کا موقع فراہم کر دیا ہے- چنانچہ الفتح کے رہنما جناب محمود عباس نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری سے ملاقات کے بعد اپنی تقریر میں اسرائیل کے جنگی جرائم پر حماس ہی کا لب و لہجہ اپنایا ہے- اُنھوں نے جنگ بندی کی جو شرائط پیش کی ہیں اُن میں غزہ کی سرحدوں کو کھول دینے اور اسرائیل کے قائم کردہ بفرزون کو ختم کر دینے اور حماس کے تمام گرفتار شُدگان کو رہا کرنے کے مطالبات شامل ہیں- حماس اور الفتح کی یہ نظریاتی یگانگت اور فکری ہم آہنگی اسرائیل کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے درپردہ حامی حکمرانوں کے اقتدار کیلئے بھی بہت بڑا خطرہ ہے- فلسطینی مسلمانوں کےخلاف جنگی جرائم پر مسلمان حکمرانوں کی خاموشی کا سب سے بڑا سبب یہی ہے!(ختم شد)