ڈاکٹر مجید نظامی… کچھ یادیں کچھ باتیں

تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے اپنی پہچان بنانیوالے روزنامہ نوائے وقت کو حمید نظامی کی وفات کے بعد ڈاکٹر مجید نظامی نے جس طرح آگے بڑھایا‘ یہ صحافتی تاریخ کا روشن باب ہے۔ انہوں نے نہ صرف نامساعد حالات بلکہ آمریت کا ڈٹ کر جرأت مندی سے مقابلہ کیا اور اپنے وقت کے آمروں کے سامنے کلمہ حق بلند کرکے ثابت کر دیا کہ ان کو جرأت‘ اظہار سے دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت نہیں روک سکتی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ہر دور میں مظلوم کا ساتھ دیا اور ظالم کی بھرپور مخالفت۔ بابائے قوم قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور مجید نظامی بھی ساری زندگی کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے رہے اور کشمیری لیڈر بھی برملا کشمیر کی آزادی اور کشمیر کے مجاہدین کی حمایت کرنے پر مجیدنظامی کے شکرگزار رہے۔ اسی طرح تحریک پاکستان میں ان کا کردار بھی نمایاں تھا جس کا اعتراف کرتے ہوئے اس وقت کے آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل نوابزادہ لیاقت علی خان نے انہیں مجاہد پاکستان اور ایک تلوار سے نوازا تھا۔ مجیدنظامی کو جب ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ملی تو جن لوگوں نے ان کی صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا‘ اس میں راقم بھی شامل ہے۔ ایسی ڈگریوں سے انکی شخصیت بہت بلند تھی اور اس سے یقیناً ڈگری دینے والی پنجاب یونیورسٹی کے وقار میں اضافہ ہوا تھا کہ مجید نظامی کو یہ اعزاز ملنا‘ اعزاز کیلئے باعث عزت تھا۔ میرا مجید نظامی سے تعلق عرصہ چالیس برسوں پر محیط ہے۔ میری پہلی ملاقات ان سے اس وقت ہوئی جب میں واپڈا میں ملازم تھا۔ مجید نظامی نے ایک آدمی بھیجا کہ میسن روڈ پر دو گھروں میں بجلی کے کنکشن چاہئیں۔ میں نے جناب مجید نظامی کا نام سنا تو دو ایپلی کیشن فارم لیکر انکے نوائے وقت کے پرانے دفتر پہنچا اور ان کو دونوں فارم پیش کئے۔ مجید نظامی صاحب نے ایک فارم پُر کرکے خود دستخط کر دیئے اور دوسرے پر ڈاکٹر فضل سے دستخط کروا دیئے۔ میں نے کاغذات کی تکمیل اور سکیورٹی رقم جمع کروا کر اگلے روز ہی بجلی کے میٹر لگوا دیئے تھے۔ مجھے بلایا اور بہت خوش ہوئے جب میں نے بتایا کہ میں حفیظ تائب کا چھوٹا بھائی ہوں تو اور خوش ہو گئے اور اسی روز سے ایک اعزازی اخبار حفیظ تائب کے گھر جاری کرنے کے احکامات دیئے اور یہ سلسلہ حفیظ تائب کی وفات تک جاری رہا۔ اس دوران میری ان سے مختلف تقریبات میں گاہے بگاہے ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں‘ لیکن سب سے اہم اور یادگار ملاقات مسجد نبوی میں ہوئی۔ وہ بھی عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب آئے ہوئے تھے۔ انکے انتقال سے چند ہفتے قبل کی بات ہے روزنامہ نوائے وقت کے دفاتر 4 شارع فاطمہ جناح سے 23 شارع فاطمہ جناح پرمنتقل ہو چکے تھے۔ میں لفٹ کے انتظار میں کھڑا تھا کہ لفٹ اوپر سے نیچے آکر رکی تو مجید نظامی صاحب باہر نکلے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے نعتوںکا سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔
مجید نظامی جب بھی ملے بڑی محبت سے ملے۔ حفیظ تائب کی ان کے دل میں بڑی قدر و منزلت تھی۔ حفیظ تائب نے بھی اپنی زندگی میں نوائے وقت کیلئے وقتاً فوقتاً مضامین اور نعتیں لکھیں اور مذاکروں میں حصہ لیا۔ ان کی نوائے وقت سے رفاقت نوائے وقت کے اجراء سے ہی تھی اور ہمارے گھر میں نوائے وقت شروع ہی سے آتا تھا۔آج نوائے وقت کا جو نام اور مقام ہے‘ یہ سب ڈاکٹر مجید نظامی کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ انہوں نے درد دل کو کبھی کام کے درمیان حائل نہیں ہونے دیا اور قائداعظم کے اصولوں کو ہی اپنی زندگی کا نصب العین بنایا۔ کام‘ کام اور صرف کام کیونکہ بابائے قوم نے نوائے وقت کے اجراء پر اپنے پیغام میں فرمایا تھا یہ دیکھ کر بڑی مسرت محسوس ہوتی ہے کہ جریدہ نوائے وقت کا انتظام ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو قربانی کے جذبہ سے کام کر رہے ہیں مجھے معلوم ہے کہ یہ اخبار ہمارے عوام کو وسیع تر مسائل کا شعور دلانے کیلئے وسیع کام کر رہا ہے جو مسلم قوم کو درپیش ہیں۔
نوائے وقت نے بھی قائد کے فرمان کو سر آنکھوں پر رکھا اور تحریک پاکستان میں ایسا کردار ادا کیا جس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔قیام پاکستان کے بعد بھی نوائے وقت نے حق و صداقت کا پرچم سربلند رکھا۔ اس کیلئے کبھی جابر حکمرانوں نے اخبار اور کبھی پریس بند کیا مگر تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجورد کلمہ حق بلند کرتا رہا اور ان حکومتی اقدامات پر تنقید کرتا گیا جو ملک و قوم کے مفاد کیخلاف نظر آئے۔ حمید نظامی کے بعد حقیقی معنوں میں مجید نظامی نے جو کردار ادا کیا‘ وہ بے مثال ہے اور آج نوائے وقت جس مقام پر ہے وہ اسی کا نتیجہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن