صابر بخاری - سجاد اظہر پیرزادہ - خادم علی کھوکھر
بابا بلھے شاہ کی دھرتی کے حوالے سے مشہور شہر قصور‘ اِن دنوں پاکستان کے سب سے بڑے جنسی سکینڈل کی لپیٹ میں ہے۔ قصور سے 15کلومیٹر دورحسن خان والا کے علاقے میںچار بھائیوں باپ ،چچااور دیگر پر مشتمل کچھ درندہ صفت افراد مبینہ طور پر 287 معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ 6سال سے ایک شرمناک کھیل کھیل رہے تھے‘جس کو بدفعلی،زیادتی اور ریپ کا نام دیا جاتا ہے۔ اِس گھنائونے جرم کے سر پر 6سال سے پڑی خاموشی کی طویل چادر نے اُس وقت دھیرے دھیرے سرکنا شروع کیا جب چندماہ پہلے نوائے وقت قصور کے نامہ نگار نے سفاک ملزموں کی گرفتاری کے متعلق خبر شائع کی۔خبر کی اشاعت کے بعدجن متاثرہ والدین کو اپنے بچوں پر گزری اِس قیامت پر یقین نہیں آرہا تھا‘بچوں اور بچیوںکے ساتھ زیادتی کرتے وقت ملزمان کی جانب سے بنائی گئی ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعدکئی والدین کے کلیجے منہ کو آئے اور دل غم کے مارے شق ہوگئے۔ کم سن بچے اور بچیوں کو بدفعلی کا نشانہ بنا کر ویڈیو بنانے اور اسے انٹرنیٹ پر فروخت کرنے کے حوالے سے خبریں منظر عام پر آئیں۔4جون کو لواحقین سڑکوں پر نکلے ، ٹائر جلائے، احتجاج کیا اور جھڑپ میں 22پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔
اس سلسلے میںمیگزین ایڈیٹرروزنامہ نوائے وقت خالد بہزاد ہاشمی نے وقوعہ کی تحقیقات کیلئے ہمیںفوراً متعلقہ علاقہ روانہ کیا۔ جبکہ قصور سے نامہ نگار خادم علی کھوکھر بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جنسی سکینڈل کو طشت از بام کرنے کیلئے نوائے وقت کی ٹیم 7اگست کو1بج کر 4منٹ پر متعلقہ علاقے پہنچی اور بعد ازاں دی نیشن کی ٹیم بھی پہنچ گئی اور وقت نیوز اور دی نیشن میں وقوعہ کی کوریج کی گئی۔
اصل حقیقت کی تلا ش میں متعلقہ علاقہ پہنچنے کیلئے جس سواری کا ہم نے انتخاب کیا ‘ اُس میں خبر ملی کہ اصل میں یہ وقوعہ دو خاندانوں کے مابین دیرینہ جھگڑے کا ہے ۔ یہ جھگڑا کیا ہے اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ بی آر بی نہر کے کنارے آباد متعلقہ بستی حسن خان والا میں ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ اس سرحدی علاقے میں جو گنڈہ سنگھ بارڈر سے تھوڑی ہی مسافت کے فاصلے پر ہے ‘ انسانیت نے حیوانیت کا روپ دھار رکھا ہے۔ اشرف المخلوقات سمجھا جانے والا انسان بھیڑئیے جتنا خطرناک بنا ہوا ہے۔ انسان ہونے کے دعویداروں نے رونگٹے کھڑے کئے ہوئے ہیں۔ یہ گائوں جس کی آبادی تقریباً اڑھائی ہزار اور یہاں کے لوگ بہت سادہ ہیں‘ بنیادی طور پر پرامن علاقہ ہے۔جب ہم وہاں پہنچے تو حسین خان والا چوک پر 20 پچیس پولیس اہلکاروں اور چند چھوٹے افسران پر مشتمل نفری موجود تھی۔ تھانہ گنڈہ پور میں نئے تعینات ہونے والے ایس ایچ او انسپکٹر طارق بشیر چیمہ بھی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ تھانہ گنڈہ سنگھ میں ان کی تعیناتی گزشتہ رات ہوئی ہے‘ مگر جب اُن سے پوچھا گیاکہ اِن 12گھنٹوں کے اندر اب تک آپ نے کیس سٹڈی کیوں نہیں کیا تو انہوں نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں یہ بات واضح ہوئی کہ کوئی بھی بڑا واقعہ رونما ہونے کے بعد متعلقہ افسران کو ٹرانسفر و معطل کیوں کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ نئے تعینات ہونے والے افسر کے پاس یہ جواز ہو کہ وہ تو نئے تعینات ہوئے ہیںسب کچھ پہلے تعینات افسر کو ہی معلوم ہے اور وہ ہی سب کچھ بتا سکتے ہیں۔ چند سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے طارق بشیر چیمہ نے بتایا کہ یہ واقعات-12 2010-11ء کے ہیں مگر یہ رپورٹ ابھی ہوئے ہیں اور اس میں اشتعال بھی آیا ہے۔ ان کے مطابق اس واقعہ میں پارٹی بازی کی سیاست شامل ہو گئی ہے۔ وقوعہ کی حقیقت کے متعلق پوچھے گئے سوال کے بارے میں ایس ایچ او نے بتایا کہ واقعہ سچائی پر مبنی ہے۔ بچوں، بچیوں کیساتھ زیادتی کی گئی اور ویڈیوز بھی بنائی گئی ہیں ملزمان وسیم عابد، حسیم عامر اور نسیم شہزاداور چچا شفیع اور دیگرپولیس ریمانڈ پر ہیں جبکہ مقدمہ میں نامزد باقی 9ملزمان میں سے چند ضمانت پر اور کچھ مفرور ہیں۔ ایس ایچ او کے مطابق تین کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ 6 ملزمان فزیکل ریمانڈ پر ان کے پاس موجود ہیں مگر ان کو خفیہ مقام پر رکھا گیا ہے اس لئے آپ کی ملاقات ان سے نہیں کرائی جا سکتی۔ ایس ایچ او نے بتایا کہ ملزمان سے ویڈیوز بھی برآمد ہوئی ہیں۔ طارق بشیر چیمہ نے جب یہ بتایا کہ وہ پولیس مقابلوں کے ماہر ہیں تو اُن کے چہرے پر آنے والے تاثرات آنے والے دنوں کی خبر دینے لگے تھے ۔جب ان سے اس خطرے کے متعلق پوچھا گیا کہ آپ کو یہاں ملزمان کو پولیس مقابلے میں مارنے کیلئے لایا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ملزمان سے قانون کے مطابق سلوک ہو گا۔ کسی پرانے اہلکار سے معلومات لینے کے حوالے سے ایس ایچ او نے بتایا کہ تھانے کا پورا عملہ تبدیل ہو گیا ہے۔ ایس ایچ او سے کچھ معلومات لینے کے بعد ہم حسین خان والا گائوں میں داخل ہوئے تو راستے میں ایک جاوید اقبال نامی شخص سے ملاقات ہوئی۔جاویدنے بتایا کہ علاقہ میں زیادہ تر آرائیں قوم آباد ہے، جن 287 بچے، بچیوں کیساتھ زیادتی کی گئی ان میں سے کچھ کو گن پوائنٹ پر اور کچھ کی رضا مندی شامل تھی۔ حسین خان والا گائوں اور اس کے گرد و نواح کے علاقے جن میں بگے، نوری والا، بھیڈیاں، کھریپڑ، الو آنا، وڈے گائوں، تارا گڑھ، بستی گراں والا، کانی والا سمیت کئی دوسرے علاقوں کے بچے، بچیوں سے زیادتی کی گئی اور فلمیں بنائی گئیں۔ جاوید اقبال نے بتایا کہ ملزمان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ ایک بچے یا بچی کی زیادتی کی فلم بنا کر اس کو بلیک میل کرتے کہ وہ اپنے دوست کو بھی لے آئے اس کے علاوہ وہ پیسوں، زیورات کا تقاضا بھی کرتے اور نہ دینے کی صورت میں ویڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے کی دھمکی دیتے۔ ملزمان نے غریب گھرانے کے لوگوں کو بھی ساتھ ملایا ہوا تھا۔ جس جگہ پر ملزمان بچوں اور بچیوں کو لے جاتے تھے‘ اُس حویلی کے باہر انہوں نے ’’اندر آنا منع ہے‘‘ لکھا ہوا ہے۔ حویلی کے اندر خفیہ کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں۔ جاوید اقبال نے انکشاف کیا کہ ملزم حسیم عامر کا چچا مقامی گرلز سکول میں چپڑاسی ہے جو لڑکیوں کو ورغلا کر ملزمان کے چنگل میں پھنسواتا تھا۔ سکول کی میڈم کو معلوم ہوا تو اس نے میڈم کو بھی دھمکیاں دیں کہ ٹرانسفر کرا دوں گا۔ جاوید نے مزیدبتایا کہ ملزم حسیم عامر نے قصور میں مشتاق کالونی میں کمرہ لیا ہوا تھا وہاں پر بھی بچے اور بچیوں کو لے جاتا تھا، لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی فلمیں بھی بنی ہوئی ہیں۔ بچے اور بچیاں خوف سے گھر والوں کو نہیں بتاتے تھے اب خوف ختم ہوا تو لوگ مقدمات درج کرا رہے ہیں۔ یہاں ہمیں ایک ایسے شخص کا ذکر سننے میں ملا جس کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے رہا ہے۔ مبین غزنوی نام کے شخص کے حوالے سے پتہ چلا کہ وہ بھی اس کام میں شریک تھا لیکن جب ملزموں میں سے حسیم عامر کے ساتھ اس کی لڑائی ہوئی تو مبین نے بدلہ لینے کیلئے ویڈیو کو لیک کردیا۔دوسری طرف یہ بھی سننے میں آیا کہ مبین کے دوست کے بیٹے کے ساتھ انہوں نے زیادتی کی اور فلم بنائی جس پر مبین نے لڑکے کو کہا کہ وہ کارڈ چرا کر دے۔ جب وہ لڑکا حسیم عامر کے موبائل سے کارڈ چرا کر لے آیا تو اس میں اور بھی بہت سے بچوں، بچیوں کیساتھ زیادتی کی فلمیں موجود تھیں۔ اس طرح یہ واقعہ منظر عام پر آگیا۔کھراد کا کام کرنے والے ایک شخص خلیل نے بتایا کہ ملزمان چھ سال سے 8سے10 سال تک کے بچوں کو ورغلا کر حویلی لے جاتے تھے گن پوائنٹ پریانشہ آور ادویات کھلا کر بے ہوش کر کے زیادتی کرتے اور فلمیں بنا لیتے۔ انہوں نے حویلی میں بیٹھک، واش روم میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے ہوئے تھے۔ وہ بچوں کو بلیک میل کرتے کہ گھر سے پیسے اور دوسرا سامان لے کر آئو اور بچے خوف سے جو بھی ہاتھ میں آتا ان کو دے آتے تھے۔ ملزمان زیادتی کے بعد ان بچوں کو دوسرے بچوں سے زیادتی کراتے جن سے وہ زیادتی کر چکے ہوتے اور ان کی فلمیں بھی بنا لیتے۔ بچوں نے ہی موبائل سے کارڈ چرایا تو یہ منظر عام پر آیا۔ خلیل نام کے شخص نے مزید بتایا کہ ملزمان نے لاہور فیصل ٹائون میں بھی اڈہ بنایا ہوا تھا جہاں پر غلط کام کرتے تھے۔ خلیل کے مطابق8ماہ قبل ملزمان نے ایک بچے سے زیادتی کی جس کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی مگر ملزمان نے دھمکیا ںد ے کر صلح کرالی۔ انہوں نے بتایا کہ فلموں میں ملزمان کی شکلیں بھی واضح نظر آتی ہیں۔ ان کے پاس80 ویڈیوز موجود ہیں۔ جن ملزمان کی تصویریں نہیں ہیں ان کی آوازیں واضح سنائی دیتی ہیں۔بدفعلی کا نشانہ بننے والے پندرہ سالہ مشرف کے بھائی مدثر نعیم نے نوائے وقت کو بتایا کہ تین سال قبل جب اس کے بھائی کی عمر 12 سال تھی ایک ملزم فیضان مجیدنے قبرستان سے واپس آتے ہوئے پکڑا ، مارا اور حویلی میں زبردستی لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنایا۔ وہ با اثر لوگ ہیں۔ڈر کے مارے کسی کو نہیں بتایا کافی عرصہ گزرنے کی وجہ سے ان کے پاس میڈیکل کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ملزمان نے میرے بھائی کی ویڈیو بھی بنالی ہے۔ پولیس نے کچھ بے گناہ لوگ بھی پکڑے ہوئے ہیں۔ ان میں میرے چچا کا بیٹا بشارت بھی شامل ہے۔ ملزمان نے غریب بچوں کو بھی اس میں شامل کیا ہوا تھا جس کی وجہ سے کئی بے گناہ بھی پھنسے جا رہے ہیں۔ مدثر نعیم نے بتایا کہ ایک ماہ ہو گیا ہے اس نے بھائی کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو دیکھی ہے۔ زیادتی کا نشانہ بننے والے پندرہ سالہ طیب نے بتایا کہ ملزمان نے دو سال قبل اس سے اس وقت زیادتی کی جب وہ رات کو کھیتوں میں پانی دینے جا رہا تھا‘ بدنام زمانہ حویلی کے سامنے حسیم عامر، وسیم سندھی اور تنویر کلہاڑیوں، ٹوکے اور رائفل سے ڈرا دھمکا کرحویلی میں لے گئے جہاں انہوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اوردونوں بھائی حسیم عامر اور نسیم نے اس سے زیادتی کی۔ اس دوران ملزمان نے کیمرے سے ویڈیو بھی بنا لی۔ اگلے روز جب ان کے دوسرے بھائیوں علیم آصف اور وسیم عابد کو بتایا تو انہوں نے بھی زیادتی کی۔ ملزمان زیادتی کی ویڈیو دکھا کر بلیک میل کرتے رہے اور بچوں کو بھی لے کر آنے کا کہتے رہے۔ طیب نے بتایا کہ اس نے ڈر کے مارے گھر میں بھی کسی کو نہیں بتایا تھا ابھی ویڈیو سامنے آئی ہے تو سب کو معلوم ہوا ہے۔ حسیم عامر نے کئی مرتبہ اس سے زیادتی کی اور بھی کئی بچوں کی ویڈیوز اس کے پاس موجود ہیں۔ زیادتی کا نشانہ بننے والے تیرہ سالہ اعجاز احمد ولد محمد یاسین نے بتایا کہ ملزمان 2010ء سے جب اس کی عمر 8 سال کی تھی سے 2014ء تک اس کو زیادتی کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ میں اپنے کھوہ پر جا رہا تھا کہ حسیم عامر اورنسیم شہزاد دونوں بھائیوں نے راستے میں پکڑ لیا۔ تشدد کا نشانہ بنایا اور حویلی میں لے گئے۔ نشہ کا ٹیکہ لگایا جس کے بعد چاروں بھائیوں علیم آصف، وسیم عابد، حسیم عامر اور نسیم شہزاد نے زبردستی کا نشانہ بنایا۔ ملزمان نے ویڈیوز بھی بنا لیں جس سے وہ بلیک میل کرنے لگے کہ اور بچوں کو لے آئو گھر والوں کو نہیں بتانا۔ چوری چھپے گھر سے چیزیں اٹھا کر ان کو دیتا رہا تقریباً آٹھ لاکھ روپے ان کو دے چکا ہوں۔ اب اسکی ویڈیو نیٹ پر موجود ہے۔ ملزمان ایک بچے 8 سالہ عبدالمنان کو کہتے رہے کہ وہ بھی اس سے زیادتی کرے اور زبردستی اس سے بھی زیادتی کرائی۔
زیادتی کا نشانہ بننے والے ایک چودہ سالہ بچے شرجیل ولد مشتاق نے نوائے وقت کو بتایا کہ ملزموں نے2010میں گھر سے باہر پکڑا اور زبردستی حویلی میں لے جا کر زیادتی کی اور خود ہی حسیم عامر نے ویڈیو بھی بنائی۔ علی مجیدنے بھی زیادتی کی۔ ویڈیو سامنے آنے سے دو ماہ پہلے تک وہ زیادتی کرتے رہے۔ ڈر خوف سے گھر والوں کو نہیں بتایا۔ ان کا قریبی عزیز لاہور ہائیکورٹ میں کام کرتا ہے۔ ان ظالموں کی وجہ سے مجھے اپنا مدرسہ چھوڑنا پڑا۔ زندگی تباہ ہو گئی۔ متاثرہ بچے اعجاز کی والدہ ثریا بی بی نے بتایا کہ درندہ صفت 2011سے 2015تک میرے بیٹے کے ساتھ زیادتی کرتے رہے۔ بیٹے نے ان کے خوف سے گھر والوں کو کچھ بھی نہیں بتایا۔ میں نے اپنے بیٹے سے زیادتی کی ویڈیو روزوں سے ایک دو دن پہلے دیکھی۔ میں نے بیٹے سے زیادتی کی ایف آئی آر درج کرادی ہے اور میں ہی اس کی مدعی ہوں۔ ثریا نے بتایا کہ نسیم شہزاد کا ٹارگٹ لڑکیاں تھیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ملزموں کو پھانسی دی جائے۔ ایک اور خاتون شکیلہ نے بتایا کہ ملزم پہلے میرے بیٹے عبدالمنان سے زبردستی زیادتی کرتے رہے۔ اُ س وقت وہ 8 سال کا تھا۔ اس کے بعد میرے بیٹے سے دوسرے بچوںکے ساتھ زیادتی کراتے رہے اور ویڈیوز بھی بنالیں۔ میرے بیٹے کیخلاف ایک بھی مقدمہ نہیں ہے مگر پولیس نے اس کو گرفتار کرلیا ہے۔ میں نے اپنے بیٹے کیساتھ زیادتی کی ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
حسین خان والا کے اس تحقیقاتی دورے کے دوران ہمیں اس حوالے سے بہت سے پہلوئو ںکو جانچنے کا موقع ملا۔ ایک پہلو جو ہمارے سامنے آیا یہ ہے کہ ملزمان بچوں کو پیسے دے کر زیادتی کرتے تھے اور امریکہ کی ویب سائٹ کے ساتھ ان کا معاہدہ تھا وہ ویڈیوز اس ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردیتے تھے اور اس سے خاصا پیسہ کماتے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ آجکل مدعیوں کے لیڈر بننے والے مبین کا کردار بھی مشکوک ہے۔ مبین کی سرکردگی میں دیہاتیوں نے دولے والا چوک پر مظاہر کیا جس میں متعدد پولیس اہلکار اور دیہاتی زخمی ہوئے۔ مبینہ طور پر مبین بھی اس سے قبل ملزمان کا پارٹنر تھا۔ کسی بات پر اختلاف ہوا تو اس نے ویڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردی ہے۔ ہمیں اس دوران اس واقعہ کا وہ پہلوہمارے سامنے آتا دکھائی دیاجو قصور آتے وقت راستے میں ڈرائیور نے بتائی تھی۔ ہمیں یہاں ہمارے ایک ذرائع نے بتایا کہ اصل ماجرا یہ ہے کہ حسیم عامر نے محکمہ انہار کی ایک جگہ نہری کوٹھی پر قبضہ کیا ہوا تھا جبکہ مبین چاہتا تھا کہ اس جگہ پر کوئی فلاحی مرکز بن جائے۔ اس بناء پر دونوں میں کشیدگی پائی جاتی تھی اور ان کا آپس میں جھگڑا بھی ہوا تھا مبین نے اس سلسلے میں ایک جلسہ بھی یہاں منعقد کیا تھا۔ملزمان حسیم عامر کی فیملی پڑھی لکھی اور وہ کچھ با اثر بھی ہیں۔دیہاتیوں کے مطابق اس کا بھائی علیم آصف پولیس میں، بھائی وسیم عابد ایلمد قصور، محمد یحییٰ گوجرانوالہ میں واپڈا میں ملازم ہے۔ چچا جج کے ریڈر ہیں۔بتایا گیا کہ تنزیل الرحمان، عتیق الرحمان اور سلیم اختر شیرازی بھی اس کے چچا ہیں۔ مبین اس فیملی سے بدلہ لینا چاہتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بچوں سے زیادتی کی ویڈیوز آگئیں اور اس نے انہیں انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردیا اور مدعیوں کا لیڈر بن گیا۔ ذرائع کے مطابق مبین کو سیاست کا بہت شوق ہے اور وہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں چیئرمین کا امیدوار بھی ہے۔ واقعہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ حسیم عامر خود سر تھا اور وہ حویلی میں بچے اور بچیوں کیساتھ زیادتیاں کرتا تھا۔ اس نے حویلی گیٹ پر یہ لکھوا رکھا تھا کہ بغیر اجازت اندر آنا منع ہے۔ اس کے گھر والے بھی اندر نہیں جاسکتے تھے۔ وہ بچوں، بچیوں کیساتھ زیادتی کی ویڈیوز بناتا اور انہیں بلیک میل کرتا تھا۔ ملزمان کے ایک خاندانی ذرائع کے مطابق جتنی بھی باتیں کی جا رہی ہیں وہ حسیم عامر کی حد تک درست ہیں مگر خاندان کے دوسرے افراد بے قصور ہیں۔ ان کو صرف اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ وہ کیس کو فالو نہ کرسکیں۔
ایک پہلو یہ ہے کہ کہیں بچے پیسوں کے لالچ میںیا کسی اور وجہ سے خود بدفعلی کراتے رہے ہوں۔ اس دوران ان کی ویڈیوز چوری چھپکے یا بچوں کی رضا مندی سے بنائی گئی ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مبینہ طور پر 287 بچوں سے زیادتی کی گئی ہو اور کوئی ایک بھی بچہ گھر نہ بتائے اور نہ اس کو میڈیکلی تکلیف ہوئی ہو نا ممکن سا لگتا ہے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جتنے بچوں کی ویڈیوز بنی ہیں وہ زبردستی کی نہیں لگتیں اور یہ پروفیشنل قسم کی ویڈیوز ہیں۔ڈی پی او قصور بار سعید نے بتایا کہ جن بچوں کیساتھ زیادتی ہوئی ہے ان کے والدین بلا جھجک ایف آئی آر درج کرائیں ملزمان کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔
تاحال پاکستان کی تاریخ کے اس سب سے بڑے جنسی سکینڈل کے بارے میں حکومت کی خاموشی تعجب خیز ہے۔
حیوانیت بھی ہوئی شرمسار
Aug 09, 2015