دھرنوں کے دوران عمران خان نے جس ایمپائر کے انگلی کھڑی کرنے کا تذکرہ کیا تھا وہ کون تھا ایک طویل عرصہ تک اس کا نام و نشان معلوم نہ ہوسکا اور نہ ہی کسی نے کوئی سنجیدہ کوشش کی کہ دریافت کیا جائے یہ موصوف ایمپائر ہیں کون ذات شریف۔ جن نیوٹرل ایمپائرز کا ذکر عمران خان صاحب پہلے کرتے رہے ہیں وہ تو فیلڈ میں پرفارم کرتے ہیں اور اکثر کھلاڑیوں کو آﺅٹ کرتے ہیں مگر جس ایمپائر کا ذکر وہ اب کھلاڑیوں کواِن کرتے ہوئے کرتے ہیں۔ اسی شریف النفس ایمپائر نے عمران اور انکے 32 کے قریب اراکین قومی اسمبلی کو دوبارہ ایوان میں داخل کرا دیا ہے۔ مگر اس حوالے سے کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ذرا ایک نظر ان حالات کا جائزہ لیتے ہیں جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا آزادی مارچ جسے سونامی مارچ کا نام بھی دیا گیا 14 اگست 2014ءکو شروع ہوا اور دسمبر کو 126روز کے بعد یہ ختم کردیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے 2013کے عام انتخابات کے نتائج کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ نواز شریف نے منظم دھاندلی کرکے پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چوری کیا ہے۔ درحقیقت یہ صرف تحریک انصاف ہی نہیں تھی بلکہ دیگر تمام جماعتوں نے کسی نہ کسی انداز سے دھاندلی کا ذکر کیا تھا حتی کہ نواز شریف نے بھی الزام عائد کیا کہ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں بھی دھاندلی ہوئی ہے تمام جماعتوں کی طرف سے انتخابی غداریاں بھی دائر ہوئیں مگر پی ٹی آئی کی الیکشن ٹربیونلز میں خاطر خواہ پذیرائی نہ ہوئی جس کے بعد عمران خان نے عوامی احتجاج کا فیصلہ کیا اور اعلان کیا کہ وہ آزادی مارچ کے ذریعے 10لاکھ کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دینگے۔ پاکستان عوامی تحریک تو پہلے ہی تیار بیٹھی تھی اسکے رہنما علامہ طاہر القادری نے بھی اس میں شمولیت کا اعلان کردیا اسی موقعہ پر لندن پلان سامنے آیا جس میں چوہدری شجاعت، عمران خان اور طاہرالقادری کی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل شجاع سے ملاقات کا حوالہ دیا گیا تھا۔ ابتداءمیں عمران اور قادری نے ایسی کسی ملاقات سے لاعلمی ظاہر کی مگر بعد ازاں اسے قبول کر لیا۔
آزادی مارچ کے آغاز پر قادری نے سختی سے پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی تحریک اور احتجاج کو ختم کرنے سے انکار کیا مگر اسلام آباد کے ڈی چوک میں پہنچتے ہی دونوں دھڑے ایک دوسرے میں گھل مل گئے‘ ان میں تفریق کرنا مشکل تھا بس فرق تھا تو اتنا کہ قادری کے دیوانے تو دن رات دھرنوں پر موجود رہتے تھے خاص طور علامہ ناصر عباس کے کارکنوں نے تو بڑی جرا¿ت، دلیری اور جواں مردی کے مظاہر دکھائے قصہ کوتاہ عمران خان کو 17 دسمبر کو دھرنوں کی بساط پشاور میں ہونیوالے خودکش حملوں اور آرمی پبلک سکول کے بچوں کے قتل عام کی وجہ سے لپیٹنا پڑی پشاور سانحہ نے عمران خان کو نکلنے کا ایک عزت مندانہ راستہ فراہم کردیا ورنہ وہ تو برملا کہہ رہے تھے کہ جب تک نواز استعفےٰ نہیں دینگے انہیں اکیلا بھی دھرنے پر بیٹھنا پڑا تو وہ بیٹھیں گے۔ انہیں دھرنوں کے دوران عمران خان نے یہ تاریخی جملہ بولا تھا ”کل بروز ہفتہ ایمپائر انگلی اٹھائے گا“ سبھی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ایمپائر سے عمران خان کی مراد کون تھا اور جب وہی ایمپائر عمران اور قادری سے ملنے پر نواز شریف سے پوچھ کرراضی ہوا تو اس نے دونوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ کنونشن سینٹر میں منتظر وزیراعظم نواز شریف کے نمائندوں سے مذاکرات کریں عمران اور قادری جس طرح پرجوش انداز میں جھومتے ہوئے ایمپائر سے ملنے گئے تھے اتنی ہی لٹکی ہوئی شکلیں لیکر واپس آئے اور عین ہدایات کے مطابق اپنے نمائندوں کو مذاکرات کیلئے بھیج دیا۔ انہی مذاکرات کے نتیجے میں جوڈیشل کمیشن کا قیام اور اسکے مینڈیٹ یعنی ٹرم آف ریفرنس پر آخر کار اتفاق ہو گیا۔ قادری نے اس پورے عرصہ میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن کو اپنی تقریروں کی بنیاد بنائے رکھا اور اپنی مرضی سے وزیراعظم نواز شریف اور انکے بھائی شہباز شریف اور دیگر وزراءکیخلاف ایف آئی آر درج کروا کر خود بھی دھرنوں سے اٹھ کھڑے ہوئے کچھ لوگوں کی طرف سے برملا یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایک خطیر رقم کے عوض نواز لیگ سے مک مکا کر لیا ہے اور پلان کے عین مطابق بیماری کا بہانہ بنا کر وہ پھر سے عازم لندن ہوئے جہاں سے دنیا بھر کے دورے کر رہے اور مختلف مقامات پر لیکچر دے رہے ہیں حال ہی میں ماہ رمضان کے آخری عشرے میں وہ لاہور تشریف لائے اور اپنے حصے کے فطرانے و صدقے وصول کر کے پھر اپنی آماجگاہ کینیڈا سدھار گئے ہیں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان کے رفقا جن میں رحیق عباسی اور نواز گنڈاپور جیسے افراد شامل تھے جو اقتدار کے سٹالن گراڈ کو اپنے پنجوں تلے روندنے کے ایسے ایسے بلند بانگ نعرے لگا رہے تھے وہ اب کہاں ہیں؟ اگر کوئی بھی حقیقت حال سے بخوبی واقف ہونے کا خواہشمند ہے تو اسے پاکستان عوامی تحریک کے سینئر وائس چیئرمین اور قادری صاحب کے دست راست مرتضی پویا صاحب سے رجوع کرنا چاہیے۔ اب دیکھتے ہیں کہ جوڈیشل کمشن نے کیا کیا۔ عمران خان نے کمیشن کے سامنے 3 سوال رکھے تھے۔ پہلا یہ کہ کیا 2013ءکے انتخابات میں نواز لیگ نے منظم دھاندلی کی؟ دوئم یہ کہ کسی نے سازش کے تحت انتخابی نتائج تبدیل کئے اور سوئم یہ کہ جن اہلکاروں نے دھاندلی کی ان کیخلاف کارروائی کا آغاز ہو۔ ان تینوں الزاموں کے بارے میں جوڈیشل کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کوئی شواہد اور ثبوت فراہم نہیں کئے گئے جن کے ذریعے ان میں کوئی الزام بھی ثابت ہو سکے اور یوں عمران کو اپنے سیاسی کیرئیر کی سب سے بڑی ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اب ایک ایشو کو دیکھ لیتے ہیں جو دھرنوں کے دوران شروع ہوا جمعرات کے روز اپنی انتہا کو پہنچا۔ جس طمطراق سے عمران خان نے اور سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی سے استعفے دیئے وہ کون بھول سکتا ہے اور پھر کنٹینروں پر بیٹھ کر ان اسمبلیوں کو وہ کونسی گالی ہے جو نہ دی گئی ہو۔ چوروں کی اسمبلی، ڈاکوﺅں کی اسمبلی اور ضمیر فروشوں کی پارلیمنٹ جیسے خطابات سے عوام کے مینڈیٹ اور ان مقتدر ایوانوں کی تذلیل کی گئی وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ درست مان لیتے ہیں کہ نواز لیگ نے دباﺅ کے تحت ان استعفوں کو منظور نہیں کیا مگر انکے منظور نہ کئے جانے کی خواہش دل میں رکھنا ہی بہت بڑی منافقت ہے۔ یہ سمجھنا تو آسان ہے کہ ایمپائر نہیں چاہتا کہ یہ استعفے قبول کئے جائیں اور یہی وجہ ہے کہ نواز لیگ کی قیادت پی ٹی آئی کے ارکان کی اسمبلی میں واپسی پر اتنی پرجوش ہے کہ اگر یہ معاملہ انکی جماعت کے ارکان کا ہوتا تو شاید وہ اتنی شدو مد کے ساتھ یوں انکی واپسی کیلئے دن رات ایک نہ کرتے مگر کمال تو عمران خان اور انکے ساتھیوں نے ان 126 دنوں کی تنخواہیں، ٹی اے، ڈی اے اور تمام مراعات وصول کیں اور جب اس پر عوامی اور سیاسی ردعمل سامنے آیا تو لگے ڈھینگیں مارنے کہ ہم تو یہ سیلاب زدہ لوگوں کے ریلیف فنڈ میں جمع کرا رہے ہیں۔ اس پورے قصے میں سب سے دلچسپ کریکٹر جمعیت علماءاسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا ہے جنہوںنے تحاریک قومی اسمبلی میں جمع کرائیں کہ آئین کی رو سے یہ استعفے منظور ہو چکے کیونکہ کوئی رکن اگر باقاعدہ درخواست کے بغیر 40 دن تک ایوان سے غیر حاضر رہے تو اسکی رکنیت ختم ہو جاتی ہے۔ نواز شریف نے جس طرح تحریک انصاف کی قیادت کی منتیں کی وہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے مگر سپیکر اسمبلی نے الطاف حسین کو فون کر کے اپنے سر میں جو خاک ڈالی ہے اسکی وجہ اسکے سوا کچھ نہیں کہ ان پر پی ٹی آئی کا بے پناہ دباﺅ تھا کہ انکے حلقے میں بے پناہ دھاندلی ہوئی ہے انہوں نے شاید اپنے تئیں حساب برابر کرنے کی ٹھانی ہو اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وہ کیا جو ایک غیر جانبدار سپیکر کو نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ایوان میں جمہوریت کے وہ واحد ٹھیکیدار نہیں ہیں۔ اب ہمیں یقین ہو گیا ہے نواز لیگ میں جمہوریت نہیں بدترین ڈکٹیٹر شپ ہے ورنہ اگر تحاریک پر آزادانہ ووٹ کا حق دیا جاتا تو ایمپائر سمیت سبھی دنگ رہ جاتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور الطاف حسین نے کس عوضانہ کیلئے اپنا موقف تبدیل کیا ہے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انہوں نے صرف جمہوریت کی بقاءکیلئے اپنے موقف کی قربانی نہیں دی بلکہ ”کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے“۔ بہرحال کسی اور کو کوئی شبہ ہو تو ہو ہمیں صورتحال بالکل واضح ہے کہ ایمپائر نے اس دن تو انگلی کھڑی نہیں کی مگر اب ہاتھ کھڑا کر کے جس طرح تحریک انصاف کو دوبارہ قومی اسمبلی میں پہنچایا ہے وہ لائق تعریف ہے۔ تاہم دھرنوں سے لے کر اب تک نواز لیگ اور تحریک انصاف کی جو جنگ ہوئی اس پر صرف یہی کہنا کافی ہے ....
سکندر نے پورس سے کی جو لڑائی
جو کی تھی لڑائی تو میں کیا کروں