”اسلحہ لائسنسوں کا اجراءیا انسانی قتال میں سہولت کاری“

Aug 09, 2015

ڈاکٹر حسن فاروقی

پنجاب حکومت کے انقلابی اقدامات میں سے ایک نادرا کے اشتراک سے کمپیوٹرائزڈ اسلحہ لائسنسوں کا اجراءبھی ہے، جسکے آج کل دھڑا دھڑ اخبارات میں اشتہار آرہے ہیں اور یوں معلوم ہو رہا ہے کہ گویا یہ کوئی خاصے کی چیز ہے اور عوام کیلئے نہایت سود مند ہے، میں جتنا اشتہار کے الفاظ یا عبارت کو پڑھتا ہوں میرے ذہن میں کئی سوالات جنم لے رہے ہیں، اشتہار کی سب سے پہلی سطر کچھ یوں ہے ”صوبہ پنجاب کو غیر قانونی اسلحہ سے پاک اور شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کےلئے“ اس سطر کے دو حصے ہیں ایک صوبہ کو غیر قانونی اسلحہ سے پاک کرنا اور دوسرا شہریوں کو سہولت فراہم کرنا وغیرہ۔ آیئے سب سے پہلے قانونی اور غیرقانونی اسلحہ کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ جی ہاں قانونی اسلحہ وہ ہوتا ہے جو لائسنس یافتہ ہو یعنی جس کا محکمانہ اندراج موجود ہو اور آئندہ قانونی اسلحہ اشتہار ہذا کےمطابق مقررہ تاریخ تک کمپیوٹرائزڈ لائسنس یافتہ ہی قرار پائے گا جو 1400 روپے ادائیگی کے بعد ممکن ہوگا۔ اشتہارمیں یہ بھی درج ہے کہ مقررہ تاریخ کے بعد پرانے لائسنس منسوخ کر دیئے جائینگے اور یوںسابقہ قانونی اسلحہ بھی غیر قانونی قرار دے دیا جائیگا اس مقام پر یہ سوالات اپنی جگہ برقرار رہیں گے کہ کیا مقررہ تاریخ کے بعد محض تاریخ میں توسیع کی جائیگی یا گھر گھر چھاپے مار کر منسوخ شدہ اسلحہ پکڑکر دریا برد کردیا جائیگا اور ایسے افراد کو قرار واقعی سزا بھی دی جائےگی یا کچھ بھی نہیں ہوگا، میں یہاں اپنے دانشور قارئین سے دریافت کرنا چاہوں گا کہ کیا قانونی اسلحہ کی نالی سے نکلی ہوئی گولی اور غیر قانونی اسلحہ کی گولی میں نتائج کے اعتبار سے کوئی فرق ہے؟ کیا غیر قانونی اسلحہ کی گولی سے اپنے دفاع میں بھی کسی کا قتل قانونی فعل ہوگا؟ اور اسی طرح قانونی اسلحہ سے کیا ایک انسان دوسرے انسان کا قانوناً خون لے سکتا ہے؟ بندوق، پستول یا کلاشنکوف سے غبارے تو پھاڑے نہیں جا سکتے ظاہر ہے یہ کسی بھی صورت میں انسانوں کے خون کے کام آئینگے۔ ایک بھونڈی دلیل یہ ہو سکتی ہے کہ چیز تو چیز ہوتی ہے یہ تو فقط استعمال پر منحصر ہے کہ مثبت ہو یا منفی، جیسے چھری چاقو وغیرہ بھی تو ہیں آپ چاہیں تو اس سے سبزی پھل وغیرہ کاٹ لیں یا کسی کا گلا کاٹ لیں۔ معافی چاہتا ہوں چھری چاقو کا استنباط آتشیں اسلحہ کیساتھ بالکل غیر منطقی ہے، شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں چاقو چھری نہ ہو کیونکہ یہ امور خانہ داری کیلئے لازم ہے جبکہ بندوق کلاشکوف وغیرہ چاہے قانونی ہو یا غیر قانونی یہ ہر طور گھریلو استعمال کی چیز نہیں ہے، آج کا انسان جنگلوں میں آباد نہیں ہے کہ شیر چیتے کے حملے کا احتمال ہو اور یوں بندوق بھی گھریلو اسلحہ کے طور پر ناگزیر ہے، میں نے اپنے ایک دوست سے ایک روز دریافت کیا کہ آپ نے گھر میں کوئی اسلحہ وغیرہ رکھا ہوا ہے؟ انہوں نے بڑے فخر سے جواب دیا کہ ہاں جی دو نالی بندوق بھی بہت پرانی اور پستول بھی ہے۔ دونوں کے لائسنس بھی ہیں، گزشتہ تیس پینتیس برسوں سے ہمارے پاس ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ کبھی بندوق چلائی بھی ہے یا نہیں؟ انہوں نے پھر کہا کہ نہیں کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی البتہ کبھی کبھار ہوائی فائر نکال دیتے ہیں اور بس! میں نے پھر پوچھا کہ کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا ہوا ہو کسی کی جان لینے کیلئے یا کبھی کوئی کتا وغیرہ ہی مارا ہو؟ وہ پھر مسکرا کر بولے کہ نہیں ہم شریف لوگ ہیں کسی سے لڑتے وڑتے نہیں اور پھر کتے بیچارے کو بھی کیوں مارنا خدا کی مخلوق ہے۔ تو پھر آپ نے اسلحہ گھر میں کیوں رکھا ہوا ہے؟ میں نے پھر اپنا سوال داغ دیا جس پر وہ سوائے مسکراہٹ کے کچھ نہیں لوٹا سکے اور مجھے توقع بھی یہی تھی۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ پاکستان میں 75 فیصد اسلحہ ایسے افراد کے پاس ہے جنہیں خود معلوم نہیں کہ انہوں نے اسلحہ کیوں رکھا ہوا ہے، محض شوق، احساس عدم تحفظ یا کسی پارلیمنٹیرین سے با سہولت اسلحہ لائسنس کا حصول۔ یوں تو ایسے گھروں میں اسلحہ کی موجودگی معاشرے کیلئے مجموعی طور پر بظاہر خطرناک معلوم نہیں ہوتی مگر کوئی ذی شعور ان دنوں اگر اخبارات کا بغور مطالعہ کرلے یا کیس سٹڈی (CASE STUDY) کے طور پر گزشتہ ایک ماہ کے اخبار کی خبروں کا جائزہ لے تو معلوم ہوگا کہ بڑی تعداد میں قتل ایسے ہی گھروں میں معمولی رنجش، غلط فہمی، معمولی تکرار، ڈپریشن، عدم برداشت یا نمودونمائش یا شوبازی میں ہوئے ہیں، معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات، مادیت پرستی اور دوسری سماجی برائیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث گھریلو اسلحہ (بلاامتیاز قانونی وغیرقانونی) انسانی قتل میں سہولت کار کا کردار ادا کرتا ہے، معاشرتی انحطاط پذیری کے باعث بھائی بھائی کو، پڑوسی پڑوسی کو اور تاجر تاجر کو برداشت نہیں کرتا۔ دفتروں میں رقابت کا جذبہ عروج پر ہے، معمولی پیسوں کے لین دین پر دست و گریبان ہونا معمول کی بات ہے ایسے میں تصور کیجئے کہ اگر گھروں میں اسلحہ نہ ہو تو ظاہر ہے لوگ لڑیں گے تو ضرور کیونکہ لڑنا بھی انسانی فطرت ہی میںموجود ہے تاہم ہاتھا پائی یا ڈنڈے سوٹے سے لڑائی اور آتشیں اسلحہ سے لڑائی میں بہت فرق ہے اول الذکر میں قتل وقتال سے بچت کے 95 فیصد امکانات ہیں جبکہ آخرالذکر ہی قتل کے 95فیصد امکانات ہیں، ہمارے ہاں جو آج کل قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے یہ اسی قانونی وغیرقانونی اسلحہ کے باعث ہے جو عام گھروں میں موجود ہے۔

مزیدخبریں