سرینگر (اے این این+ آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) بھارت کا ایک ڈرامہ فلاپ اور گھنائونی سازش کا پردہ فاش ہوگیا۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقے اودھم پور پر حملے کا ملزم فیصل آباد کی بجائے مقبوضہ کشمیر کے ضلع کولگام گائوں گھاٹ کا نکلا۔ مارا جانے والا نوجوان بھی اسی گائوں کا رہائشی تھا، اسطرح بھارت کے ڈھول کا پول کھل گیا۔ گرفتار نوجوان نوید جَھلّا کے اہل خانہ اور رشتہ داروں سمیت 15 افراد بھارتی فورسز کی تحویل میں ہیں، گرفتار نوجوان جموں سرینگر بس سروس میں کنڈکٹر تھا جسے واقعہ کے دوران وہاں سے گزرتے ہوئے اسے گرفتار کیا گیا تھا، گائوں گھاٹ کے مزید دو نوجوان لاپتہ ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق بھارتی حکومت اور میڈیا کے تمام تر دعوے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوئے ہیں۔ اس واقعہ میں پاکستان کو ملوث کرنے کا الزام جھوٹا نکلا ہے، بھارتی میڈیا اور حکومت نے جس نوجوان کی شناخت نوید عرف عثمان کے نام سے بتائی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ یہ فیصل آباد کا رہائشی ہے، اس نے مارے جانے والے ساتھی کی شناخت نعمان اور اسکا تعلق بہاولپور سے بتایا ہے، یہ دونوں الزامات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ گرفتار نوجوان کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے ضلع کولگام کے گائوں گھاٹ سے ہے، اسکا گائوں جموں سرینگر شاہراہ سے دو کلومیٹر دور دریائے جہلم کے کنارے واقع ہے، یہ نوجوان اپنے گائوں میں جَھلّا (دیوانہ) کے نام سے مشہور ہے، اسکی آنکھ میں نقص ہے، یہ ہر وقت مسکراتا رہتا ہے، دیکھنے میں بھی دیوانہ لگتا ہے، اس نوجوان کو جائے وقوعہ سے گزرتے ہوئے حراست میں لیا گیا تھا۔ اسکے خاندان کے دیگر افراد گائوں چھوڑ کر روپوش ہوچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اودھم پور میں مارا جانے والا دوسرا نوجوان بھی اسی کے گائوں گھاٹ سے تعلق رکھتا تھا، اس گائوں کے مزید دو لڑکے فیاض اور ماجد بھی کافی دنوں سے غائب ہیں۔ گرفتار نوجوان کا والد کشمیری اور والدہ غیر کشمیری ہے۔ مارے جانے والے نوجوان کے بارے میں بھی تضادات سامنے آئے ہیں۔ علاقے میں موجود بھارتی فوج نوجوان کے قتل کا کریڈٹ لے رہی ہے جبکہ مقامی پولیس کے مطابق نوجوان پولیس اہلکاروں کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا تھا۔ دوسری جانب بھارتی میڈیا کے مطابق نوید کو ایک بار پھر اودھم پور لے جایا گیا۔ اسے پناہ فراہم کرنے والے ایک اور شخص کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ یہ نوجوان بھارت کی انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی حراست میں ہے۔ بھارتی میڈیا نے نوجوان کا نام نوید عرف عثمان بتایا تھا۔ پہلے بھارتی میڈیا نے بتایا کہ نوجوان کا تعلق فیصل آباد کے علاقے غلام مصطفی آباد سے ہے، پھر بیان بدلا کہ اسکا تعلق غلام محمد آباد سے ہے۔ گرفتاری کے وقت لڑکے کا ساتھی نوجوان ہلاک ہوگیا تھا جس کے بارے میں بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بہاولپور کا رہائشی ہے۔ گھاٹ گائوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ نوجوان بھی اسی گائوں کا رہائشی ہے۔ گھاٹ ہی سے تعلق رکھنے والے دو اور نوجوان تیاگ اور مالک کافی عرصے سے غائب ہیں۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک ذہنی طور پر کمزور نوجوان کسی صورت بھی آہنی باڑ عبور کرکے نہیں آسکتا۔ علاقے کے وکیلوں نے بھی ’’حملے‘‘ کی تصدیق کی ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی حکومت کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اْدھم پور پولیس چیک پوسٹ پر حملہ دہشت گرد حملہ نہ ہو، حقائق جانے کی کوشش کررہے ہیں۔بھارتی میڈیا کے مطابق جموں کشمیر کے نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اْدھم پور کے قریب پولیس پوسٹ پر حملہ، دہشت گرد حملہ نہ ہو بلکہ یہ سپیشل پولیس، ایس پی او اور مقامی ترقیاتی کونسل کے ارکان کے درمیان کسی جھگڑے کا نتیجہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ دہشت گرد حملہ نہیں ہوسکتا، ہم حقائق کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ علاقہ میں ایس پی اواور مقامی ترقیاتی کونسل کے ارکان کے درمیان ایک دہائی سے مسائل رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اْدھم پور پولیس کے ایس ایس پی سلیمان چودھری علاقے کا دورہ کیا اور ایس پی او اور ترقیاتی کمیٹی کے ارکان اور دیہاتیوں سے فائرنگ کے واقعہ پر تبادلہ خیال کیا۔ ادھر بھارتی پولیس ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود چندا نامی برقع پوش عورت کو پاکستانی ثابت نھیں کر سکی، اپنے فلاپ ڈرامے کو نیا رنگ دینے کے لئے پولیس نے عدالت سے پولی گرافکس ٹیسٹ کی اجازت مانگ لی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق امرتسر پولیس نے چندا کو مقامی عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ چندا کی شناخت کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، اس کے ریمانڈ میں مزید 4 روز کا اضافہ کیا جائے۔ عدالت نے پولیس کی استدعا منظور کرتے ہوئے چندا کے ریمانڈ میں مزید 4 روز کی توسیع کرتے ہوئے اس کے پولی گرافکس ٹیسٹ کی بھی اجازت دیدی۔