اسلام آباد(اے ایف پی) ریڈیو کے انٹینا کی طرح کے بوگس دستی بم ڈیٹیکٹروں کا استعمال گلوبل سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد جنگ زدہ علاقوں میں بھی متروک ہوگیا ہے تاہم پاکستان میں اس کا استعمال اب بھی زوروشور سے جاری ہے۔ عہدیداروں کی جانب سے اس آلے کو موثر طور پر کام کے حوالے سے ناکام قرار دئیے جانے کے باوجود ایسے 15 ہزار دستی بم ڈیٹیکٹر تیار کئے گئے ہیں جنہیں ائرپورٹس اور اہم حکومتی اداروں میں سکیورٹی کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ برطانیہ کے بزنس مین جیمز میک کارمک سمیت ایسے ڈیٹیکٹر تیار کرنے والے کئی افراد فراڈ کے جرم میں جیلیں کاٹ رہے ہیں۔ برطانوی جیمز میک کے بنائے گئے ڈیٹیکٹر اے ڈی ای 651 پر گزشتہ ماہ باضابطہ طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے سینئر عہدیدار نے کہا اس آلے کی صرف دفاعی اہمیت ہے۔ یہ صرف پولیس اور سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں میں ہونے کا کام انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا دہشت گرد اب کافی چالاک ہوگئے ہیں اور ایسے آلات کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔ پاکستان نے آغاز میں اے ڈی ای 651 اور جرمنی میں بنائے گئے سنیفیکس جیسے ڈیٹیکٹر درآمد کئے تھے۔ تاہم 2009ء میں پاکستان کے ائیرپورٹ سکیورٹی فورس (اے ایس ایف) نے ایسے آلات بنانے اور فروخت کرنا شروع کردئیے ۔ ملک بھر میں 70 ہزار روپے کی لاگت سے 15ہزار آلات تیار کئے گئے۔ ایک عہدیدار کے مطابق ان کی فروخت سے ایک کروڑ ڈالر کی آمدن حاصل کی گئی۔ ’’کھوجی‘‘ کے نام سے ان آلات (وینڈز) کو ائیرپورٹس اور حکومتی اداروں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ کھوجی کے مینول میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ آلہ 100 میٹر کی دوری سے دھماکہ خیز مواد کا پتہ چلا لیتا ہے۔ تاہم یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر ایندرہا سہلا نے اس طرح کے دعوئوں کو مضحکہ خیزقرار دیا۔ ان آلات میں موجود مقناطیس کاروں میں موجود سٹیل کی موجودگی میں دھماکہ خیز مواد کو پکڑنے میں ناکام رہتا ہے۔