احمد کمال نظامی
ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کی قومی اسمبلی کی پارلیمانی پارٹی نے عمران خان کو اپنی پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا ہے اور دوسری طرف مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین میاں محمد شہبازشریف کے متعلق فیصلہ ہوا ہے کہ وہ مشترکہ اپوزیشن کی طرف سے عمران خان کے خلاف اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔ مشترکہ اپوزیشن میں مسلم لیگ(ن) سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے کہ جس کے پاس قومی اسمبلی کی 64نشستیں ہیں۔ پیپلزپارٹی قومی اسمبلی کی 43 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور ایم ایم اے 11 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ اس اتحاد کے ارکان کی نوٹیفکیشن کے ساتھ تینوں اپوزیشن پارٹیوں کو خواتین کی مخصوص نشستوں کے علاوہ اقلیتوں کے مخصوص کوٹے سے بھی حصہ ملے گا۔ پاکستان تحریک انصاف الیکشن 2018ء میں نہ صرف قومی اسمبلی اور صوبہ کے پی کے کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے بلکہ ان انتخابات کے نتیجے میں اسے سندھ اور بلوچستان سے بھی نمائندگی مل گئی ہے۔ بلوچستان سے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی ایک اور بلوچستان اسمبلی کی پانچ نشستیں ملی تھیں، ایک آزاد امیدوا کے پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو جانے سے بلوچستان اسمبلی میں ’’ٹائیگرز‘‘ کی تعداد چھ ہو گئی ہے اور انہیں کم از کم دو نشستیں خواتین کی مخصوص نشستوں میں سے مل جائیں گی اور اس طرح تحریک انصاف بلوچستان اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم ایم اے کے بعد تیسری بڑی پارٹی بن جائے گی۔ یہ پہلا موقع ہو گا کہ جمعیت علماء اسلام(ف) اور جماعت اسلامی قومی اسمبلی سمیت کسی صوبہ میں برسراقتدار آنے والی کسی پارٹی کا حصہ نہیں ہوں گی۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو اقتدار سے باہر رکھنا پاکستان تحریک انصاف کو مہنگا پڑے گا۔ ایم ایم اے صوبہ کے پی کے اور صوبہ بلوچستان میں اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی یعنی ان دونوں صوبوں کی اسمبلیوں میں اپوزیشن لیڈر ایم ایم اے سے ہوںگے۔ عمران خان نے اپنے گزشتہ ادوار میں سب سے زیادہ تنقید ایم کیو ایم پر کی اور یہ وہی تھے جنہوں نے برطانیہ میں جا کر الطاف حسین کے خلاف پاکستان دشمنی کامقدمہ بھی لڑا۔ انہیں موجودہ ایم کیو ایم کے مقابلے میں مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی زیادہ قبول تھی لیکن الیکشن 2018ء میں کراچی نے پہلی مرتبہ مہاجر فیکٹر کو زیادہ ووٹ نہیں دیئے اور پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلزپارٹی کو کراچی سینشستیں دے کر پاک سرزمین پارٹی کو قطعی طور پر نظرانداز کر دیا ہے۔ نتیجتاً ایم کیو ایم کی ’’پتنگ‘‘ قومی اسمبلی کے چھ حلقوں میں اپنی اپنی پتنگ کو ’’بوکاٹا‘‘ سے بچانے میں کامیاب رہی ہے۔ اب جبکہ عمران خان نے اپنے خلاف کراچی کے بعض حلقے کھلوالنے کا بھی وعدہ کر لیا ہے ، میرا مشورہ ہے کہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان مخالف سیاست دانوں کے خلاف اپنا لب و لہجہ تبدیل کریں۔ اگر مخالف سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت کے خلاف سرکاری خزانے یا قومی اثاثوں میں کسی بڑی گڑبڑ کے الزامات ہیں تو اس وقت نیب، ایف آئی اے اور ملک کی دوسری اینٹی کرپشن انتہائی متحرک ہیں۔ ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم بننے والا میاں محمد نوازشریف اپنی صاحبزادی مریم نواز سمیت پس دیوار زنداں ہے۔ یہ وہی نوازشریف ہے جس نے الیکشن 2013ء کی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں جب عمران خان لاہور میں اپنے جلسے کے لئے بنائی گئی سٹیج تک جانے کیلئے کے لفٹرسے گر کر شدید زخمی ہو گئے، تو الیکشن 2013ء میں کامیابی کے بعد وہ سب سے پہلے شوکت خانم ہسپتال میں ان کی تیمارداری کے لئے گئے ۔ پھر خیر سگالی کیلئے ان کے ساتھ بنی گالا میں چائے کی پیالی پینے بھی چلے گئے۔ میاں محمد شہبازشریف 2013ء کے انتخابی جلسوں میں سابق صدر آصف علی زرداری کی کرپشن کے خلاف سخت تنقید بھی کرتے رہے مگر پھر جب تحریک انصاف 2014ء کے دھرنوں میں پارلیمنٹ کا گھیراء کئے بیٹھی تو انہوں نے جاتی امراء میں آصف علی زرداری کا میاں محمد نوازشریف کے ساتھ گرم جوشی سے استقبال بھی کیا ۔ اس وقت مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین اور ایم ایم اے قومی اسمبلی میں عمران خان کے ساتھ متحدہ اپوزیشن کا روپ دھار چکی ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے لئے متحدہ اپوزیشن نے میاں محمد شہبازشریف اور سپیکر کے لئے خورشید شاہ کو نامزد کر دیا ہے۔ ایم ایم اے سے ڈپٹی سپیکر کا امیدوار مقابلے میں ہے۔ متوقع حکمران پارٹی اپنے پہلے پارلیمانی اجلاس میں صرف وزارت عظمیٰ کے لئے عمران خان کو نامزد کرنے کے علاوہ دیگر نامزدگیاں نہیں کر سکی اور اس کی وجہ بظاہر تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے گروپ ہیں۔ شاہ محمود قریشی کے متعلق عام خیال تھا کہ وہ ملک کی وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالیں گے لیکن وہ پارٹی کے دوسرے بڑے لیڈر ہونے کی وجہ سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے خواستگار ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ عمران خان پنجاب اسمبلی کے کسی رکن کو عارضی طور پر پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیں اور انہیں اکتوبر میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایک مرتبہ پھر پنجاب اسمبلی میں پہنچنے کی کوشش کرنے دیں۔ ویسے یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ صوبہ پنجاب کا وزیراعلیٰ بہت زیادہ قدآور سیاست دان کو ہی ہونا چاہیے۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ شاہ محمود قریشی کو قومی اسمبلی میں ہی رکھیں اور اگر انہیں وزارت خارجہ کا قلمدان قبول نہیں ہے تو وہ سپیکر قومی اسمبلی بننا قبول کر لیں۔ اس سے پہلے کراچی سے تعلق رکھنے والے عارف علوی کا نام سپیکر کے لئے لیا جا رہا ہے۔ پہلے پارلیمانی اجلاس میں شاہ محمود قریشی نے ایک قرارداد کی صورت میں عمران خان کا نام وزارت عظمیٰ کے لئے پیش کیا تھا جس کا تمام ارکان نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر تالیوں سے اجتماعی منظوری کی صورت میں جواب دیا تھا۔ عمران خان چاہتے تھے کہ شاہ محمود قریشی کو سپیکر کے طور پر نامزد کر دیں اور جب انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تو شاہ محمود قریشی نے سید فخرامام کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اب پارٹی میں ماضی کا ایک قابل رشک سپیکر موجود ہے اور اس اہم ذمہ داری کے لئے ان کے متعلق سوچا جا سکتا ہے۔ ابھی تک تحریک انصاف اپوزیشن کے خورشید شاہ کے مقابلہ کے لئے اپنے کسی رکن قومی اسمبلی کا نام فائنل نہیں کر سکی ہے۔ ڈپٹی سپیکر کے لئے ایک نام صوبہ کے پی کے سے رکن قومی اسمبلی شہریار آفریدی کا ہے اور دوسرا نام تحریک انصاف کی طرف سے جنرل الیکشن پر واحد کامیاب ہونے والی خاتون زرتاج گل کا ہے جنہوں نے ڈیرہ غازی خان سے سابق صدرمملکت سردار فاروق لغاری کے بیٹے اویس لغاری کو شکست دے کر قومی اسمبلی کی نشست جیتی ہے۔ چونکہ مشترکہ اپوزیشن چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس صورت میں بلوچستان کو دونوں ایوانوں میں کوئی نمائندگی نہیں ہو گی لہٰذا پاکستان تحریک انصاف کسی اتحادی سیاسی جماعت کے قومی اسمبلی کے رکن کو ڈپٹی سپیکر بنائے تو یہ زیادہ بہتر ہو گا، اس کے علاوہ نئی حکومت کو اپوزیشن کے قائدین کے ساتھ خیرسگالی کے جذبے سے پیش آنا ہو گا۔