فرخ سعید خواجہ
الیکشن کمشن کی جانب سے الیکشن 2018میں کامیاب ہونے والے ارکان اسمبلی کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کو ہے ۔ تاہم انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کی لہریں پورے ملک میں اٹھ رہی ہیں ۔ الیکشن کمشن کی کارکردگی دائو پر لگ چکی ہے۔ حتیٰ کہ چیف جسٹس پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں ایک کیس کے دوران ریمارکس دئیے کہ انتخابات کے روز میں نے چیف الیکشن کمشنر کو تین مرتبہ ٹیلی فون کیا،جواب نہیں ملا میرے خیال سے شاید وہ اس دن سو رہے تھے۔ ادھر نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک بھی عام انتخابات والے دن کے بعدسے خاموش ہیں حتی کہ ان سطروں کی تحریر تک انہوں نے نگران کابینہ کا آخری اجلاس تک طلب نہیں کیا ۔ اس ساری صورت حال میں اسٹیبلشمنٹ سب سے طاقتور دکھائی دیتی ہے۔ یوں تو ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ہی سیاستدانوں پر غالب رہی اور ہر دور میں بعض سیاستدان ان کا کھلونا بنے رہے ماسوائے مختصر عرصے کے جس میں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنا پڑا۔ ہم اگر پچھلے30سال 1988سے 2018تک ہونے والے 10عام انتخابات کا جائزہ لیں تو ہر ایک الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار نمایاں رہاہے۔ ان کی مرضی ہی سے حکومتیں آتی اور جاتی رہی ہیں ۔ ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ 1988کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی عوامی مقبولیت کے آگے بند باندھنے کے لئے کس نے اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی ) بنوایا تھا،ساری قوم نے دیکھا کہ 207نشسوں میں سے 93نشستیں حاصل کرنے والی پیپلزپارٹی کو اکثریت بننے کیلئے دیگر چھوٹی جماعتوں اور آزاد ارکان کا محتاج کر دیا گیا، ان کی دوڑیں اسی طرح لگوائی گئی تھیں جس طرح الیکشن 2018ء کے بعد عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کی لگوائی گئی ہیں ۔ اب یہ کوئی راز نہیںکہ شہید بے نظیر بھٹو کوسادہ اکثریت دلوانے سے پہلے اس وقت کے قائم مقام صدر غلام اسحق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے ملاقاتیں کرکے انکی تین شرائط تسلیم کرنا پڑیں۔پہلی شرط تھی کہ قائم مقام صدر غلام اسحق خان کو آئندہ پانچ سال کے لئے صدر منتخب کروایا جائے گا۔ دوسری شرط تھی لیفٹیننٹ جنرل (ر) صاحبزادہ یعقوب خان کو وزیر خارجہ بنایا جائے گا اور تیسری شرط تھی کہ دفاعی بجٹ سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ تینوں شرائط تسلیم کرکے بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں ۔ اب بنی گالہ میں کئی روز محصور رہنے والے عمران خان سے اسٹیبلشمنٹ نے کیا کیا شرائط تسلیم کروائی ہیں فی الحال بے شک راز ہیں لیکن آنے والا وقت انہیں بے نقاب کر دے گا۔ ذکر تھا بے نظیر بھٹو کا ہم واپس اس طرف آتے ہیں، ان سے غلطی یہ ہوئی کہ اپنی پہلی نشری تقریر کے موقع پر انہوں نے اپنی پشت پر ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر لگا دی۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس پرناراضگی کا اظہار کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اس پر گرمی کھا گئی۔ اس نے جوابی طور پر آنکھیں دکھائیں۔ یوں کھیل شروع ہوگیا اور محض ڈیڑھ سال بعد ان کے اقتدار کا بوریا بستر گول کردیا گیا۔ 1990کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کو سبق سکھلایا اور پیپلزپارٹی محض قومی اسمبلی کی 44نشستیں حاصل کر سکی جبکہ آئی جے آئی کو 104نشستیں ملیں جو کہ سادہ اکثریت تھی ، دیگر جماعتوں اور آزاد ارکان کو جوڑ کر آئی جے آئی کی حکومت کو مذید مضبوط بنایا گیااور نواز شریف وزیراعظم بنے ۔ نواز شریف دو مرتبہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے تھے، وزیراعظم بننے کے بعدان کی خود اعتمادی بڑھ گئی اور اب انہیں اسٹیبلشمنٹ کی ڈکٹیشن بری لگنے لگی تھی،دوسری طرف سے اس پرنہ صرف نا پسند دیدگی کا مظاہرہ کیا گیابلکہ آنکھیں بھی دکھائی گئیں۔ نواز شریف نے مزاحمت کی اور مشہور زمانہ تقریر ’’ میںڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘ کی۔ انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا کہ ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ جو لوگ آج دریافت کرتے ہیں کہ نواز شریف سے اسٹیبلشمنٹ کا جھگڑا کیا ہے ؟ تو وہ جان لیں کہ جھگڑا 1990-93سے شروع ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد نواز شریف دوسرے سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنے ’’محسنوں ‘‘ کو آنکھیں دکھائیں ۔ نواز شریف کو 1993میں گھر بھیجنے کے بعد 1993کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کو 73نشستوں تک محدود کر دیا گیا جبکہ پیپلزپارٹی کو 89نشستیں ملیں ۔ کسی کو سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی۔ سو اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کھیل کھیلا اور دیگر جماعتوں اور آزاد ارکان جوڑ کر شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت بنوا دی۔ نواز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے ۔ بے نظیر بھٹو آخر ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھی اس مرتبہ حکومت میں پائوں جمانے کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کے لئے اقدامات کئے۔سو ان کی حکومت اس وقت کے صدر ان کے فاروق بھائی سردار فاروق احمد خان لغاری کے ہاتھوں ختم کروائی گئی ۔ 1997کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا گیا اور انہیں قومی اسمبلی کی صرف سندھ ہی سے 18نشستیں ملیں ۔ باقی صوبوں میں پیپلزپارٹی کا صفایا ہوگیا۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے 2ارکان ، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اسمبلی میں ایک ایک رکن منتخب ہوا۔ سندھ اسمبلی میں انہیں غالباً 37نشستیں ملیں۔ سو سندھ میں اسٹیبلشمنٹ نے جام صادق علی کی حکومت بنوائی۔ ان کے بعد لیاقت جتوئی اور پھر کسی اور ٹائٹل سے سید غوث علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ رہے۔ نواز شریف اور مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی 137نشستیں حاصل کرکے مسرور ہوگئے تھے ۔ دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر ان کی دو تہائی اکثریت بن گئی۔ اس دوران نواز شریف نے ایک تقریر پر ناراض ہو کر آرمی چیف جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لے لیا۔ جنرل پرویز مشرف نئے آرمی چیف بنے ۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس کا عہدہ خالی تھا۔ پرویز مشرف وہ حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ جھگڑا شروع ہوا ۔ نواز شریف جھکے اور یہ عہدہ بھی پرویز مشرف کو دے دیا لیکن پرویز مشرف اب تیسری ٹوپی پہننے کے بھی خواہاںہوگئے اور 1999کا سانحہ پیش آیا ۔ مشرف دور میں2002کے الیکشن ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے مسلم لیگ ن کا حشر نشر کیا اور الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کو تقسیم کروایا۔ پیپلزپارٹی پٹریاٹ کو مسلم لیگ ق سے جوڑ کر میر ظفر اللہ جمالی کو ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم بنوایا۔ 2007میں جنرل مشرف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی معاونت سے شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او کیا۔ وہ 2008کے الیکشن کے بعد مزید پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہونا چاہتے تھے ۔ لیکن بی بی بے نظیر انتخابی مہم کے دوران شہید کر دی گئیں اور الیکشن کے بعدنواز شریف اور آصف زرداری نے کام دکھایا۔ مواخذہ کی تحریک سے ڈر کر پرویز مشرف صدارت سے مستعفی ہوگئے اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ماضی قریب کی تاریخ ہے جس سے قوم بخوبی آگاہ ہے اور اب الیکشن 2018میں جس طرح الیکشن ری پلے ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ البتہ چیئرمین عمران خان نے کیا سودے بازی کی ، تاحال صغیہ راز ہے۔ تاہم یہ راززیادہ دیر راز نہیں رہے گا اور جلد بلی تھیلے سے باہر آ جائے گی۔