”متحدہ اپوزیشن“ابھی وقت بہت دور ہے!

الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کا ارادہ رکھنے والی سیاسی جماعتیں زیادہ تر اُن جماعتوں پر مشتمل ہیں جن کی جماعت کے مرکزی رہنماﺅں کو بھی جنرل الیکشن میں سیٹ بچانا ممکن نہ رہا۔ ان جماعتوں کا بظاہر ایجنڈہ تو یہی ہے کہ انتخابات دوبارہ کروائے جائیں، حالانکہ90فیصد غیر ملکی و ملکی مبصرین حالیہ الیکشن کو سابقہ الیکشن سے بہتر قرار دے چکے ہیں۔ اور حیر ت اس بات کی ہے کہ جو جماعتیں آج تک کسی عوامی مسئلے پر اکٹھا نہ ہو سکیں ، کبھی ڈیم بنانے کی غرض سے اکٹھا نہ ہوسکیں، جو جماعتیں کبھی تعلیم، صحت اور روزگار کے بنیادی مسائل پر اکٹھا نہ ہوسکیں وہ الیکشن ختم ہونے کے ایک ہفتے کے اندر اندر گرینڈ الائنس تشکیل دے کر نئی حکومت جس نے ابھی حلف اُٹھانا ہے اس کے لیے مسائل پیدا کرنا شروع کر دیتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ماضی کی دو حریف جماعتیںپیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن مفادات کی خاطر آج پھر ایک ہو رہی ہیں،کبھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آرہی ہیں تو کبھی یہ جماعتیں ایک دوسرے کی رہائش گاہوں پر اکٹھی ہوتے نظر آتی ہیں۔ اگر ان دونوں جماعتوں کے ماضی پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ لوگ ہمیشہ عوامی مفادات کیخلاف اکٹھے ہوئے۔ 1999ءکے مارشل لاءسے پہلے یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی جانی دشمن تھیں، اور دونوں ایک دوسرے پر 232کرپشن کے کیسز درج کرواچکی تھیں۔جن میں ایک دوسرے پر کھربوں روپے کی کرپشن کے الزامات تھے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی میں ہر حد تک جانے کے لیے دونوں جماعتیں ہمہ وقت تیار رہتی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکی کردار کشی کی ن لیگ نے اُس وقت انتہاءکر دی جب محترمہ کی نازیبا تصاویر والے پوسٹرز ہیلی کاپٹرسے پھینکے جاتے رہے۔ پھر جب مارشل لاءلگا اور اقتدار کی کرسی نیچے سے سرکتی ہوئی دکھائی دی، دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیااور پہلی بار مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کسی اتحاد میں شامل ہوئے۔ اور اُس اتحاد کا نام ”اے آرڈی“ رکھا گیا۔ اس اتحاد کے ذریعے اقتدار میں آنے کے لیے دونوں جماعتوں نے 2002ءکے الیکشن میں ایڑھی چوٹی کا زور لگایامگر بری طرح شکست سے دوچار ہوگئیں۔ کیوں کہ عوام ان کی غفلتوں، خصلتوں اور کرپشن زدہ ٹھیکوں کی حقیقت کو جان چکے تھے۔ اُس کے بعد یہ اتحاد ریزہ ریزہ ہوگیا۔
پھر جب اقتدار کی یاد ستانے لگی تو 2006ءمیں دونوں جماعتیں لندن میں اکٹھی ہوئیں اور ”میثاق جمہوریت “پر دستخط کرکے الیکشن 2008کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد ہمدردی کا ووٹ جب پیپلزپارٹی کو ملا تو اُس کے لیے اقتدار میں آنا آسان ہوگیا، جمہوریت کے ان علمبرداروں نے کرپشن میں اس قدر انتہا کی کہ شاید آپ کو یاد ہو کہ اس دور کے آخری مہینوں میں اتوار کو بینک کھلوا کر بھی ٹرانزیکشن کی جاتی رہیں۔ ایک عام اندازے کے مطابق پیپلز پارٹی کے دور میں 2008سے 2013ءتک ساڑھے 4ہزار ارب روپے کی کرپشن ہوئی پھر 2013ءمیں ن لیگ کی باری آتی ہے تو اس دور کی کارستانیوں کے زخم ابھی تازہ ہیں.... اس لیے انہیں چھیڑنے کی ضرورت نہیں بس اتنا جان لیجیے کہ مسلم لیگ ن کے آخری دور میں 6ہزار ارب روپے کی کرپشن کے الزامات کی پاکستان کے مختلف اداروں میں شنوائی ہو رہی ہے۔ اور اب جبکہ الیکشن 2018ءمیں تیسری پارٹی تحریک انصاف جیت چکی ہے.... اور عوام ان روایتی سیاستدانوں کے حوالے سے اپنا فیصلہ سنا چکے ہیں.... تو ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے جیسے نعرے لگانے والے آج پھر اکٹھے ہو چکے ہیں۔
ان کا ون پوائنٹ ایجنڈہ یہ ہے کہ آئندہ ہونے والے متوقع احتساب کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے اُسے روکا جائے۔ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ آنے والے 180دن کے بعد چوروں، ڈاکوﺅں اور لٹیروں کی اس ملک میں گنجائش شاید نہ رہے۔ اور یہ ہر اُس سیاستدان کو اپنے تئیں علم ہے کہ اُس نے اس ملک کو کس کس طرح لوٹا ہے۔ آپ مولانا فضل الرحمن کی بات کر لیں جو ایک مروجہ سیاست میں ایک طاق شخصیت ہیں۔20 برس بعد وہ پاور پالیٹکس تو کیا قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی پہنچنے میں ناکام رہے۔ دو دو نشستوں پر کھڑے ہوئے اور دونوں نشستوں میں انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے لیے وہ ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ وہ بینظیر کے دوسرے دور حکومت سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اب جب وہ دونوں نشستوں سے ہار چکے ہیں تو” میں نہیں تو کوئی نہیں“ کے احساسِ بے جا میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان دنوں ان کا وہی حال ہے جو پانی کے بغیر مچھلی کا ہوتا ہے۔ وہ ماہی بے آب کی طرح مضطرب ہیں۔ ایک خبر کے مطابق وہ دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود پیر کووہ پشاور کے دورے پر روانہ ہوئے ، جہاں وہ حالیہ انتخابات میں شکست خوردہ امیداروں اسفند یار ولی خان، آفتاب شیر پاو¿ اور حاجی غلام محمد بلور اور جماعت اسلامی کے سراج الحق سے رابطے کر کے انہیں احتجاجی اور اشتعالی سیاست کے لیے اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ سب لیڈر ضعیف العمر ہیں۔ نہ مارچ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئیک مارچ۔
شرمناک جیسا لفظ ایسے سیاستدانوں کے لیے استعمال کرنے کا دل چاہ رہا ہے جو عوام کے لیے مسائل کو حل کرنے کے لیے آج تک گرینڈ الائنس نہ بنا سکے۔ جو آج تک صاف پانی، صحت، تعلیم اور دہشت گردی جیسے مسائل پر اکٹھا نہ ہوسکے۔ اس لیے خدارا ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ جماعتیں آج تک کسی عوامی مسئلے پر اکٹھے نہیں بیٹھیں، کبھی کالا باغ، بھاشا، دیا مر ڈیم کے لیے اکٹھی نہیں بیٹھیں، کبھی تعلیم، صحت اور صاف پانی فراہم کرنے کے حوالے سے اکٹھی نہیںہوئیں۔کاش یہ کبھی ملک کے 3کروڑ نوجوانوں کے روزگار پر ہی کوئی اے پی سی بلا لیتے، کاش یہ تعلیم عام کرنے اور خواندگی کی شرح بڑھانے کے لیے کوئی گرینڈ الائنس بنا لیتے، کاش یہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کوئی جرگہ منعقد کروا لیتے، کاش یہ محکمہ پولیس میں انقلابی تبدیلیوں کے لیے چاروں صوبوں کو یکجا کرنے کی بات کرتے، کاش یہ لوگ ملک کی 22کروڑ آبادی کے لیے صاف پانی مہیا کرنے اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوئی اتحاد قائم کرتے، کاش یہ لوگ امپورٹ ایکسپورٹ میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوتے نظر آتے، کاش یہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اور اُن کے سہولت کاروں کو چوراہوں پر لٹکانے کے لیے گول میز کانفرنس کرتے اور تمام جماعتیں حلف اُٹھاتیں کہ وہ ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہیں، کاش یہ لوگ ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے کچھ اقدامات کرنے پر راضی ہوتے اور بین الصوبائی کھیلوں کی بحالی کے لیے بات کرتے جو سالہا سال سے رکی ہوئی ہیں، کاش یہ پاک فوج کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر دشمن کے خلاف متحد ہونے کے لیے کوئی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرواتے ، کاش یہ اُن شہداءکے لیے اکٹھے ہوجاتے جو اس ملک پر ان سیاستدانوں کی غفلت کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہوگئے۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ آج اگر یہ اکٹھا ہوئے ہیں تو ایسی جماعت کے خلاف جو پہلی بار اقتدار میں آئی ہے۔ اسے کام نہ کرنے دینے اور احتجاج کرنے کے عہد کیے جارہے ہیں۔ انہیں ناکام بنانے کے لیے اپنے تئیں پروپیگنڈہ کروایا جا رہا ہے کہ اگر یہ لوگ آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے تو یہ گناہ کبیرہ ہوگا، خالی خزانے چھوڑ کرجانے والے یہ سیاستدان کسی طرح سے بھی عمران خان اور اسکی ٹیم کے لیے میدان خالی چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔آج نیب کو بھی آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے، اگر پی ٹی آئی میں کوئی چور ڈاکو ہیں تو اُن کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ نیب ایسا ادارہ نہیں ہونا چاہیے جس کے سر پر سپریم کورٹ کا ایک چیف جسٹس بیٹھا رہے تاکہ یہ لوگ کام ٹھیک طرح سے کرتے رہیں۔ یہ وقت شاید بار بار نہیں آتا اور نہ بار بار ملک میں تبدیلی آیا کرتی ہے۔پس عوام اس بات کی تیاری رکھیں کہ ملک میں بہت کرپٹ لوگوں کے خلاف ایک نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔ 2019ءکا 23مارچ واقعی ”یوم پاکستان“ ہوگا۔
اُمید واثق ہے کہ عمران خان اور اُن کی ٹیم ان ملکی اور عوامی مسائل سے پوری طرح واقف ہے اور وہ عوام کو مایوس نہیں کریں گے اور گزشتہ روز عمران خان نے نیب میں جا کر خود ایک مثال قائم کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان نے پروٹوکول سے انکار کرنے کے حوالے سے بھی اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔ اُمید ہے کہ اس کی وکٹری سپیچ میں جوباتیں کہی گئی ہیں وہ پوری ہوں گی، وہ ذاتیات کو ایک طرف رکھ کر کام کرنے کا عادی ہے اور شاید پاکستان کو کوئی لیڈر مل گیا ہے۔اس لیے ”متحدہ اپوزیشن“ نہ تو ابھی تک متحد ہوئی ہے اور نہ ہی ہونے کے چانسز ہیں ، اس لیے جو اقتدار میں آرہے ہیں انہیں موقع دیا جائے اور ان روایتی سیاستدانوں کے لیے وقت ابھی بہت دور ہے۔

ای پیپر دی نیشن