خارجہ امور، سلگتے مسائل

نئی حکومت کی آمد کے ساتھ ہی خارجہ امور کے حوالے سے بعض سلگتے مسائل جنم لینے لگے ہیں۔ امریکہ اور انڈیا ہماری خارجہ پالیسی کا نہایت اہم SUBJECT ہیں۔ بھارت کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہمارے خلاف شور و غل کے ذریعے غبار اٹھاتا رہے۔ چین سے دوستی کی بنا پر امریکہ بھی برہمی کا اظہار کرنے لگا ہے۔جب کبھی حالات کا تقاضا ہو تو ہمیں IMFکا رخ کرنا ہی پڑتا ہے جس پر امریکی اثر و رسوخ کے مظاہر نمایاں ہیں۔ متوقع طور پر اب بھی معاشی پسماندگی اور اقتصادی حالات کے پیش نظر پاکستان کو IMFسے رابطے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ابھی یہ واقعہ ہوا بھی نہیں ہے کہ امریکہ نے IMF سے کہا ہے کہ پاکستان کو اس شرط کے ساتھ قرضہ دیا جائے کہ وہ قرض کسی طرح چین کے قرض اتارنے کے لئے کام نہ آئے۔ IMF نے جواب دیا ہے کہ ابھی تک تو پاکستان نے کسی قرض کی درخواست نہیں دی ۔امریکہ کے واضح اور کھلے بیان پر پاکستان کے نگران وزیر خارجہ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں امریکہ سے کس رقم کی ضرورت نہں ہے۔ انہوں نے کہا
WE DONT NEED YOUR MONEY
انڈیا کی زبردست خواہش ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سنگین تنازعات برپا کر دے۔ سازشوں کے باوجود ایسا ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کو جب بھی ضرورت پڑی اور اس نے پکارا ہم چلے آئے۔ ’پکارا جب چلے آئے محبت ہو تو ایسی ہو“ چین سے تعلقات کے حوالے سے امریکہ نے پاکستان سے مدد طلب کی۔ پاکستان نے عجیب کارنامے انجام دے کر خدمت انجام دی۔ امریکی صدر نکسن نے جنرل یحییٰ کی حکومت کے دوران لاہور کا دورہ کیا۔ ان کا پرتپاک استقبال ہوا۔ معاملات طے پا گئے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ کسنجر پاکستان تشریف لائے تو بیمار پڑ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے خفیہ مشن کے طور پر چین کا دورہ کیا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان نئے تعلقات استوار ہو گئے مگر ہماری اس کوشش سے روس اور بھارت ناراض ہو گئے۔ ہمیں اس کارنامے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ گئی۔ 1971ءکی جنگ میں بھارت ہم پر حاوی ہو گیا۔ روس نے اس کی کھلی مدد کی۔ پاکستان ٹوٹ گیا۔ پاکستانی قوم امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتی رہ گئی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے صدر نکسن سے امریکہ میں ملاقات کی اور پاکستان میں صاحب اقتدار ہو گئے۔ جنرل ضیاءالحق سیاست اور جمہوریت کے حوالے سے متنازعہ کردارسہی مگر انہوں نے روس کا قرض اتار کر دم لیا۔ افغان وار میں روس کا شیرازہ بکھر گیا۔ روس ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ کمیونزم دفن ہو گیا۔ جنرل ضیاءالحق کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ ہوائی جہاز کے حادثے میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔
اس دوران بھارت بھی آنکھیں دکھاتا رہا۔ بھارت جنگ کا ماحول پیدا کررہا تھا کہ جنرل ضیاءالحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت کے شہر بنگلور کا دورہ کیا اور جنگ کی فضا کو DEIFUSEکرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ایک بار اندرا کے دور میں اور دوسری بار راجیو کے دور میں جنرل ضیاءبھارت گئے۔
ہماری خارجہ پالیسی کا یہ پیچیدہ سوال ہے کہ گھوڑے کو گاڑی کے آگے جوتا جائے یا گاڑی کو گھوڑے کے آگے۔ پہلے مسئلہ کشمیر حل ہو یا پہلے بھارت سے تجارتی اور ثقافتی تعلقات بحال کئے جائیں۔ سب نے مذاکرات کئے۔ لیاقت علی خان نے، ایوب خان نے، بھٹو مرحوم نے، جنرل ضیاءالحق نے، آگرہ کے ہیرو جنرل پرویز مشرف نے لیکن کوئی حل نہں نکلا۔یہ ستم ظریفی ہے کہ بھارت سے تعلقات کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر POINT OF VIEW زیادہ واضح بھی نہیں ہے۔ کشمیر میں جہاد جاری ہے، کشمیر ی بھائی آزادی کی تاریخ اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں۔ خود بھارت تو ترقی کی دوڑ میں پاکستان سے بہت آگے نکل گیا ہے مگر ہم جیسے کشمکش کا شکار ہو گئے ہیں۔
خارجہ امور کے حوالے سے دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ امریکہ کی وہ ہیبت اور دہشت نہیں ہے جو پہلے تھی۔ روس ایک بار پھر اپنے اثر و رسوخ کو بحال کر رہا ہے۔ چین دنیا کے بڑے ترقیاتی ملک کے طور پر طلوع ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں ہم اس بحث میں پڑے ہوئے ہیں کہ پہلے انڈا پیدا ہوا یا مرغی، پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہمارے دفاعی ادارے نکتہ چینی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ اداروں کا وقار افتخار، عزت و احترام بے حد ضروری ہے۔ اس حوالے سے بحیثیت قوم ہمیں عقل و خرد سے جذبات کے بغیر ڈائیلاگ کے ذریعے قومی پالیسی بنانی پڑے گی۔ ہم تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ذرا سی غلطی ہمیں پریشان کر سکتی ہے۔ قوم بٹ چکی ہے اور قومی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اولین کام ہمارے دفاعی اداروں کو انجام دینا ہوگا ۔ قوم میں اتفاق رائے کی خاطر واضح اور ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔اسلامی ملکوں کی صورتحال خراب ہے ۔ ہم تنزل اور بدحالی کاشکار ہیں ۔ ایسے ماحول اور فضاءہیں یہ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان اپنی بہادر فوج کی وجہ سے محفوظ ہے....فوج کو بھی اس کیفیت سے نکلنا ہوگا کہ ادار ے مستحکم ہوں۔قوم کی تقسیم ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ اللہ ضرورہماری حفاظت کرے گا۔ مگرفطرت نے بھی ایک اصول دیا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
صورتحال پہلے ہی مخدوش ہے کہ امریکا نے پاکستان کی ” فوجی امداد“ میں بھی کمی کا فیصلہ کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ امریکا میں نیشنلزم کو ہوا دے رہے ہیں انہوں نے اگلے الیکشن میں بھی حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے سابق صدر اوباما کی خوبصورت بیگم مشعل اوباما کے حوالے سے چرچے تھے کہ وہ ٹر مپ کے مقابل الیکشن لڑیں گی مگر خود اوباما نے صورتحال بیان کردی ہے۔ امریکا کے صدارتی الیکشن میں خاتون یا مرد حصہ لے سکتے ہیں جو By birthپیدائشی طور پر امریکی ہوں جب کہ مشل اوباما کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ وہ پیدائشی ، امریکی نہیں ہیں یوں وہ اس منصب کے لئے کسی الیکشن سے ہی باہر ہوگئی ہیں۔
افغانستان میں لڑتے لڑتے امریکا کی سانس بھر آئی ہے ۔ اس نے طالبان کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں .... بات چیت کے لئے دباﺅ جاری ہے.... گلبدین حکمت یار افغانستان بڑی شان سے لوٹے مگر وہ بھی مزاحمتی جنگ میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے۔
امریکا کا جاسوسی محکمہ اس ملک میں ضرور شرارت کرتا ہے جو امریکا کے خلا ف ہو جائے ایران نے امریکا سے قربت کے بہت خواب دیکھے مگر ٹرمپ نے چکنا چور کر دئیے ۔ ایران کی حکومت کو اندرون ملک جلوسوں کا سامنا ہے جو مہنگائی اور معاشی بدحالی کا رونا روتے ہوئے ایران کے بڑے رہنما خامنہ ای سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سابق صدر احمدی نژاد بھی حکومت مخالف مظاہروں میں شامل رہے ہیں ۔ ایران میں ان کی مقبولیت کے اب بھی اثرات ہیں ۔ پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے میں جانے کیوں افغانستان ایران اور بھارت ایک ہو جا تے ہیں ۔ صرف چین پاکستان کی سالمیت کا مستقل حامی ہے جسے ہم نے گوادر اور سی پیک کے منصوبوں کے ذریعے دانائی اور حکمت سے اپنا شریک کار بنا لیا ہے ۔
پاکستان کی عسکری قیادت اردگرد کی صورتحال پر گہری نظر رکھتی ہیں ۔ کشمیر ایٹمی پروگرام، افغانستان کا مسئلہ اس حوالے سے دہشت گردی اور امریکا اور بھارت سے تعلقات ایسے اشوز ہیں جن کو فوجی قیادت ، سول حکمرانوں کی بالادستی کے بھینٹ چڑھا کر 1971کی طرح ایک اور حادثے کے نذر نہیںکر سکتی ہے.... سیاستدانوں اور سول حکمرانوں کو بھی اس فہم و فراست اور شعور پر مبنی نقطہ نظر کا ادراک کرنا پڑے گا ....”زخمی سیاستی قیادت“ کے مسائل پر بھی انا کے بغیر ہمدردی سے غور کرنا پڑے گا .... جنرل باجوہ دور اندیش ہیں ، ان معاملات پر توجہ ضروری ہے۔
ایسا نہ ہو کہ درد بنے در دلا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

ای پیپر دی نیشن