صبح کے مجرم شام کو گلے لگ کر ٹھہرے

Aug 09, 2018

جنرل الیکشن میں عمران خان کی کامیابی کے بعد مبارکباد کا سلسہ عروج پر رہا اور اس کے ساتھ ہی خان صاحب وزیراعظم کی شیروانی پہننے کو تیا ر بیٹھے ہیںکہ جھٹ پٹ وہ وقت آئے جس میں وہ وزیراعظم پاکستا ن نظر آئیںاور شاید وہ اس شیروانی کو پہن کر ایک بار خواب میں ٹرائی بھی کرچکے ہوں یہ تو خان صاحب خود جانتے ہیںکہ وہ ایسے خواب دیکھتے ہیں یا نہیں لیکن میرے نزدیک ان کی شخصیت خواب کو حقیقت میں بدلنے کی ماہر ہے اس لیے ان کی 22سالہ محنت رنگ لے آئی میرے بہت سارے بھا ئی اس بات پر اٹکے ہیں کہ ان کی مددخلائی مخلوق نے کی جس کی بدولت آج وہ اس مقام پر پہنچے ہیںاس پر بحث کسی اور دن کی جائے گی لیکن آ پ خان صاحب کی 22سالہ محنت کو بھی یاد رکھیںاور خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیںخیر آ ج وہ مبارکباد کے مستحق ہیںان کی کامیابی میں ان کے نظریے کا بہت عمل دخل ہے اگر ہم دیکھیں تو اس نظریے کے تحت سیاست میں ایک ہلچل مچی اور وہ کامیاب ٹھہرے اورایک امید کی جاسکتی ہے کہ خان صاحب اپنے اردگرد مفاد پرست ٹولے پر کڑی نظر رکھ کر اس نظریے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیںگے اور جس جذبے کے تحت عوام نے انہیں ووٹ دیے اسی جذبے کے تحت وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ورنہ ان کاانجام وہ ہوگا جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے ۔
اگر تحریک انصاف کے منشور کی بات کریں جس میں انہوں نے روایتی نظام سے چھٹکارا پاکر ملک کی تقدیر بدلنے کا ایک دعدہ کیا ہے تو اس میں ایک بات کی نفی ہے کہ روایتی سیاست سے تو وہ چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے کیونکہ جیتنے کے لیے ایک بار پھر ان کو ٹکٹیں دی جو روایتی سیاست کے ہر فن مولا تھے اور الیکشن کے بعد ایک بار پھر اکثریت حاصل کرنے کے لیے دوسری پارٹی سے ہاتھ ملا کر روایتی سیاست کو جنم دے د یا روایتی سیاست سے ایک بات یاد آگئی ایک بار ایک میراثی کا بیٹا اپنے باپ سے کہتا ہے کہ ابا اگر گائوں کا نمبردار مرجائے تو پھر نمبردار کون بنے گا تو میراثی نے فورا کہا اس کا بیٹا پھر پوچھا کہ اگر وہ مرجائے تو باپ نے معصومیت سے جواب دیا کہ اس کا بیٹا جب بیٹے نے اسی طرح کوئی چار پانچ بار پوچھا تو باپ نے تنگ آکر کہا بیٹاجو مرضی ہو کمہار کا بیٹا کبھی نمبردار نہیں بن سکتا اب ملک کی تقدیر بدلنے کی طرف چلتے ہیں تو اس کے بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ پہلی بار وہ مرکز میں جانے کو تیا ر بیٹھیے ہیں تو اس حوالے سے ابھی سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نہیں کرسکتے ہاں الیکشن ہوچکے ہیںبس تھوڑا سا اور انتظار کرنا چا ہئیے یعنی بہت جلد پی ٹی آئی کے قول و فعل کا پر دہ چاک ہونے کو ہے ہاں ایک بات ہے کہ الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد کی صورت حال کافی دلچسپ ہوتی ہے الیکشن سے پہلے تو تو اور میں میں کا دور دورہ ہو تا ہے اور یہی ایک مقام ہے جہاں پر ایک ووٹر کی سوچ ایک پارٹی کیش کر لیتی ہے اب اس سوچ کے پیچھے ووٹر کی ایک چھوٹی سی لوجیک ہوتی ہے کہ اب جس انداز سے ایک پارٹی دوسری پارٹی کو گھسیٹنے کا کہہ رہی ہے ان کے ایک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہی دن ہوتے ہیں جس میںچور چوراور لوٹے لوٹے کے نعرے مردہ سیاست میں ایک جان پیدا کرتے ہیںاسی لوٹے سے مجھے ا یک منظر یاد آگیا الیکشن سے کچھ دن پہلے میرا گزر ایک مارکیٹ سے ہوا جس میںایک اصلی لوٹا ایک سیاست دان کے پوسٹر پر آویزاں تھا تو اسی وقت مجھے ایسے لگا کہ تصویر میں بیٹھا شخص اپنے آپ سے کہہ رہا ہو کہ وہ لوٹا وہ لوٹاالیکشن کے بعد کی صورت حال تو آپ سب کے سامنے ہے جس میں اب اپنی من مرضی شامل ہے یعنی ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اب اپوزیشن کی کچھ جماعتیں ایک طرف بھائی اور حکومت اور اس کے اتحادی ایک طرف بھائی بھائی خیر یہ ان کے اپنے ذاتی مقاصد ہیں لیکن عمران خان اپنی موجودہ طاقت کے ساتھ کسی کی طرف جہاز اڑائے بغیراپوزیشن میں بیٹھ جاتے تو آج وہ مزید عوام کے دل جیت چکے ہوتے ہاں حکومت بنا نا ان کا حق ہے لیکن اس کے لیے اتنا اعلان کردیتے کہ اگر کوئی آزاد امیدوار یا کوئی پارٹی تحریک انصاف میں شامل ہونا چاہتی ہے تو اس کے لیے دروازے ہر وقت کھلے ہیںاور اس کے ساتھ ہی سادگی کی ایک اعلی مثا ل قائم ہو جاتی کیونکہ نہ جہاز کے خرچے ہوتے اور نہ میڈیا پر اس کے اتنے چرچے ہوتے ویسے کسی بھی پارٹی سے اتحاد سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہئیے جو بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا اور اس قسم کے اتحاد وقتی طور پر تو بہت پرکشش نظر آتے ہیں لیکن بعد میں کوئی بھی ایسی پھکی نہیں جو کھا کر اس قسم کے اتحاد کو ہضم کر سکے اپوزیشن کی طرف آتے ہیں جن کی ہار کے پیچھے ہر بار دھاندلی کا ہاتھ ہوتا ہے ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے ہر ہارنے والے کے پیچھے دھاندلی اور جیتنے والے کے پیچھے خلائی مخلوق ہی کیوں ہوتی ہے کیا ہمارے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے یا ہارنے والے کو اپنی ہار اور جیتنے والے کی خوشی ہضم نہیں ہوتی تو اس بارے میں ایک مکمل لائحہ عمل تیا ر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جب بھی کوئی انگلی اٹھائے تو اس کا جواب دیا جاسکے او راسکے ساتھ جب اپوزیشن کا گرائینڈ الائنس اپنے اپنے مفادات کے لیے بنتا ہے تو اسے جمہوریت بچانے کا ایک نام دے دیا جاتا ہے افسوس کہ اس سیاسی نوراا کشی میں ملک وہی کا وہی رہ جاتا ہے الیکشن کے بعد اپوزیشن اور بننے والی حکومت کے اس جوڑ ٹوڑ میں جو چیز واضح ملتی ہے وہ یہ کہ صبح کے مجرم شام کو گلے لگ کر ٹھہرے ۔
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں