جنونی مودی سرکار نے تو اپنے ہندو انتہاء پسندانہ ایجنڈے کے مطابق جو کرنا تھا، وہ کر گزری ہے، اب سوال یہی اٹھ رہا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خاں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران ہندو انتہا پسندی والے بھارتی مائینڈ سیٹ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے خواتین و حضرات کی جانب سوال داغا کہ کیا میں بھارت پر حملہ کر دوں، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف صاحب تو اس سوال پر شش و پنج میں پڑ گئے مگر غالباً خواجہ محمد آصف نے یہ جواب دیا کہ اب تک آپ جو اقدامات اٹھا رہے ہیں، کیا وہ اپوزیشن سے پوچھ کر اٹھا رہے ہیں؟ آپ ملکی سلامتی اور قومی مفادات پر پہلے جن سے پوچھ کر فیصلے کرتے ہیں، اب بھی انہی سے مشاورت کر لیں۔ آصف علی زرداری نے د ھیمے لہجے میں بھارتی اقدامات پر حکومتی ردعمل کو ناکافی قرار دیا اور اپنے تئیں باور کرایا کہ خدانخواستہ میرے دور حکومت میں بھارت نے کشمیر کے حوالے سے ایسا قدم اٹھایا ہوتا تو میں اسی وقت ایک جہاز سے امریکہ، دوسرے جہاز سے چین اور تیسرے جہاز سے ماسکو جاتا اور پاکستان کیلئے ان کی حمایت حاصل کرتا۔
اگر اب بھی سیاست برائے سیاست ہو تو حکمران پی ٹی آئی کی جانب سے زرداری صاحب کو یہ جواب مل سکتا ہے کہ سرکاری اخراجات پر ملکوں ملکوں گھومنے کے الزام پر ہی تو آپ پہلے ہی نیب کی زد میں آئے ہیں، مگر حضور والا! جب ملکی سلامتی کا معاملہ ہو تو وزیر اعظم عمران خاں کو بھی دنیا کی حمایت حاصل کرنے کیلئے آصف زرداری صاحب کا تجویز کردہ اقدام ہی اٹھانا چاہئے۔ ملکی سلامتی سے زیادہ تو ہمیں کوئی چیز عزیز نہیں ہو سکتی۔ اس معاملہ میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو چشم کشا نکتہ اٹھایا اس پر بھی گہری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ انہی کے اٹھائے گئے سوال کو آگے بڑھانا چاہئے کہ ملکی سلامتی اور قومی مفادات کے معاملات پر فیصلے کرتے ہوئے آخر قوم کے منتخب کردہ فورم پارلیمنٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا۔ کیا اس نمائندہ فورم کو ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی اور گالم گلوچ کیلئے ہی استعمال ہونا ہے۔ اگر قومی پالیسیوں کے فیصلہ کیلئے اس نمائندہ فورم کو کوئی حیثیت ہی نہیں دینی تو پھر سلطانیٔ جمہور کو کس کھاتے میں ڈالا جائے، یقیناً رضا ربانی کا تجسس بھی اسی حوالے سے تھا جس کا نتیجہ ’’مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر‘‘ والا نہیں سامنے آنا چاہئے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی سلامتی کونسل نے بے شک ٹھوس فیصلے کر کے جنونی مودی سرکار کو ’’جیسے کو تیسا‘‘ والا جواب ہی دیا ہے۔ بھارت کیساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے اور بھارتی اقدام کیخلاف اقوام عالم کے نمائندہ ادارے اقوام متحدہ کے پاس اپنا کیس لے جانے سے بلاشبہ بھارت کو دفاعی پوزیشن پر لے جایا جا سکے گا مگر ان فیصلوں کا اعلان مشترکہ پارلیمنٹ کی جانب سے کیا جاتا تو اس سے بھارتی جنونیت کیخلاف پوری قوم کے متحد اور یکجہت ہونے کا ٹھوس پیغام عالمی برادری کو موصول ہوتا۔
وزیر اعظم عمران خاں نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یقیناً بہت موثر تقریر کی اور مودی سرکار کی ہندو انتہا پسندی کو ہندو مائینڈ سیٹ کے ساتھ منطبق کر کے باور کرایا کہ ہمارا مقابلہ اسی مائینڈ سیٹ کے ساتھ ہے اس لیے کوئی بعید نہیں کہ مودی سرکار پلوامہ حملے جیسا واقعہ دہرا کر پاکستان پر حملہ آور ہو جائے۔ اس لیے ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں، ایک یہ کہ ہم بھارت کے آگے ہاتھ کھڑے کر دیں اور دوسرے یہ کہ ٹیپو سلطان کی طرح خون کے آخری قطرے تک اس کا مقابلہ کریں۔ ہم یقیناً یہی راستہ اختیار کرینگے۔ بلاشبہ ہماری قومی سلامتی اور غیرت کا یہی تقاضہ ہے۔ وزیر اعظم نے ٹیپو سلطان کا بجا حوالہ دیا مگر قیام پاکستان کی تحریک کا ٹھوس حوالہ خود قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات ہے، وہ کتنے صلح جو انسان تھے، پوری دنیا انکے اس وصف کی قائل ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد بھی انتہائی پرامن طریقے سے کی اور تحریک پاکستان کے پورے عرصہ میں خون خرابے کی نوبت نہ آنے دی جبکہ قیام پاکستان کے اعلان کے بعد خون خرابے کی نوبت اس وقت آئی جب ہندو اور انگریز نے باہمی ملی بھگت سے تقسیم ہند اور بائونڈری کمیشن کے فیصلہ کو سبوتاژ کرتے ہوئے پنجاب کو دو حصوں میں کاٹ دیا۔ اس طرح سکھوں اور جنونی ہندوئوں کو پاکستان سے کٹ جانیوالے پنجاب سے پاکستان آنیوالے مسلمانوں کے قتل عام کا نادر موقع مل گیا۔ قائد اعظم نے جس دو قومی نظریے کی بنیاد پر تحریک پاکستان کا آغاز کیا وہ نظریہ جنونی ہندوئوں کا اپنا پیدا کردہ تھا جنہوں نے ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا جس سے قائد اعظم اور علامہ اقبال لاچار ہو کر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندوئوں کے مظالم سے نجات کی خاطر مسلمانوں کیلئے الگ خطے کا حصول ناگزیر ہے۔ یہ خطہ ہمیں ملا انگریز اور ہندو کی سازش کے تحت انتہائی کمزور حالت میں۔ چنانچہ پاکستان کیلئے کشمیر ہی لائف لائین تھی جسے قائد اعظم نے اسی حوالے سے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا کہ کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریائوں کے پانی سے ہی پاکستان کی زرعی معیشت نے ترقی کرنا اور پاکستان کو خوشحالی سے ہمکنار کرنا تھا۔ جنونی ہندو نے بھی اسی حقیقت کو بھانپ کر پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈہ کے تحت کشمیر کا پاکستان سے الحاق روکنے کی سازش تیار کی اور اپنی فوج داخل کر کے کشمیر کے غالب حصے پر اپنا تسلط جما لیا۔ چنانچہ جنونی ہندو کی اس گھنائونی سازش نے قائد اعظم کی صلح جوئی والی سوچ تبدیل کی اور انہوں نے پاکستان کی شہ رگ کو ہندو کے خونی پنجے سے چھڑانے کیلئے پاکستان کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو کشمیر کے مقبوضہ حصے میں پاکستان کی فوج داخل کرنے اور بھارتی فوج کو وہاں سے مار بھگانے کی ہدایت کی۔ اگر جنرل گریسی قائد اعظم کے احکام کی تعمیل سے انکار نہ کرتا اور بھارتی فوج کو کشمیر سے مار بھگاتا تو پھر بھارت کو دوبارہ کبھی ایسی حرکت کی جرأت نہ ہوتی۔ اگر قائد اعظم نے اپنی صلح جو طبیعت کے باوجود جنگ ہی کشمیر کو بھارتی تسلط سے چھڑانے کا قابل عمل حل سمجھا تھا تو انہی کی مثال کو پیش نظر رکھ کر آج بھی غاصب ہندو کے اسی طرح کے علاج کی ضرورت ہے، اس لیے وزیر اعظم عمران خاں کو کشمیر کیخلاف حالیہ بھارتی اقدام پر پاکستان کی قومی پالیسی طے کرتے وقت بانیٔ پاکستان قائد اعظم کی اس سوچ کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے۔
گزشتہ روز پبلک ٹی وی پر اسامہ طیب کے ٹاک شو میں اسی موضوع پر فکر انگیز گفتگو ہو رہی تھی۔ حکمران پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی غلام مرتضیٰ ستی نے بہت خیال افروز نکتہ اٹھایا کہ ہم نے تو اس خطہ کے امن و استحکام کی خاطر کشمیر کی جہادی تنظیم لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ اور دوسری جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کی۔ اگر بھارت صلح جوئی کی راہ پر نہیں آتا اور کشمیر کو بزور ہڑپ کرنے کی پالیسی پر کاربند رہتا ہے تو پھر ہمیں بھی اپنی جہادی تنظیموں پر پابندی کے فیصلہ پر نظرثانی کرنا ہو گی۔ بیشک ہندو جنونیت کے توڑ اور اسکے شافی علاج کا یہ بھی موثر راستہ ہے۔ تاہم ایک اور راستہ جو میں نے اس ٹاک شو میں تجویز کیا، بھارت کو عملاً ہمارے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے، وہ راستہ ہے مسلم امہ کے اتحاد اور یکسوئی کا۔ او آئی سی پچاس کے قریب مسلم ممالک کا نمائندہ پلیٹ فارم ہے۔اگر اس پلیٹ فارم پر تمام مسلم ممالک فیصلہ کر لیں کہ کشمیر سے بھارتی فوجیں نکالنے اور یو این قراردادوں کیمطابق کشمیریوں کیلئے استصواب کا اہتمام کرنے تک بھارت کا کوئی جہاز کسی مسلم ملک کی دھرتی پر نہیں اُترنے دیا جائیگا۔ بھارت کے کسی باشندے کو کسی مسلم ملک کا ویزہ نہیں دیا جائیگا اور بھارت کیساتھ کسی بھی قسم کی تجارت نہیں کی جائیگی تو ایک چوّنی کی خاطر زمین پر گرنے والا ہندو بنیاء آپکے پائوں پر آ پڑیگا۔ اے کاش کہ مسلم دنیا آج بھی مصلحتوں ، مفاہمتوں کے لبادے اتار کر باہم یکجہت ہو جائے۔ امریکہ کی طرح صرف اپنے مفادات کی پاسداری ترجیح اول بنا لے اور مسلم دھرتی پر قدرت کے ودیعت کردہ سونے، تانبے، قیمتی دھاتوں، پانی، تیل، گیس کے بے بہا وسائل صرف مسلم دنیا کی بہبود و ترقی کیلئے بروئے کار لائے اور ان وسائل کو بیرونی دنیا کی دستبرد سے بچا لے تو وہ دن ہرگز دور نہیں رہے گا جب اقوام عالم پر مسلم دنیا کا غلبہ ہو جائیگا۔ اگر ہم نے ایڑیاں رگڑ کر ہنود و یہود کی غلامی کی دی ہوئی موت ہی مرنا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو اپنے اس ازلی دشمن پر برسا کر اسکے کریا کرم کی بھی نوبت لے آئیں، بیشک ہمارے قومی ہیرو ٹیپو سلطان کا بھی یہی فلسفہ تھا کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ بسم اللہ کیجئے وزیر اعظم صاحب ! آپکے سوال کا پوری قوم کیجانب سے یہی جواب ہے۔