اسلام آباد (این این آئی) ورلڈ بنک نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے طویل تنازعہ کو حل کرنے کے لیے غیر جانبدار ماہر یا ثالثی عدالت کے تقرر سے متعلق آزادانہ فیصلہ کرنے سے عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کو دو طرفہ طور پر ایک آپشن کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ ایک انٹرویومیں ورلڈ بنک کے سابق کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان پنیجاموتھوایلنگوان نے کہا کہ بھارت اور پاکستان دونوں کو مل جل کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ کون سا آپشن اپنانا ہے۔ پاکستان نے ثالثی عدالت (سی او اے) کی تقرری کے لیے درخواست دی تھی جب کہ بھارت نے دو پن بجلی منصوبوں پر ان کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے غیر جانبدار ماہر طلب کیا ہے۔ 1960 میں ہونے والے انڈس واٹرس ٹریٹی کے تحت دو متضاد پوزیشنز کی وجہ سے عالمی بنک دونوں حکومتوں کو اختلافات کے حل اور آگے بڑھنے کے لیے راہیں تلاش کرنے میں مدد فراہم کررہا تھا۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ کیا بنک اپنے کردار سے پیچھے ہٹ رہا ہے جبکہ یہ 1960 کے معاہدے کا حصہ تھا تو انہوں نے کہا کہ معاہدے میں عالمی بنک کے آزادانہ فیصلہ لینے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ورلڈ بنک نے سندھ طاس پر ترقیاتی کاموں کا حصہ بننے کا وعدہ کیا تھا اور پھر بھی اس نے دیامربھاشا ڈیم کو فنڈ دینے سے انکار کردیا ہے، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب بنک داسو 1 اور 2 کی طرح دریائے سندھ پر دوسرے منصوبوں کی حمایت کر رہا ہے۔ بھارت نے دیامر بھاشا کے مقام پر اعتراض اٹھایا تھا۔ پاکستان اس وقت سے ہی ورلڈ بنک کو یاد دلاتا آرہا ہے کہ وہ 1960 کے انڈس واٹرس ٹریٹی کے تحت اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرے تاکہ دو متنازعہ منصوبوں یعنی 330 میگاواٹ کے کشن گنگا اور 850 میگاواٹ کے رتلے پن بجلی منصوبوں پر خدشات کو دور کیا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے کہ بھارت اس معاہدے کی پاسداری کرے۔