حضور اکرم ﷺکی بعثت مبارکہ کے بعد سب سے پہلے آپکی تصدیق کا شرف ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری ؓ کو حاصل ہوا، اسکے بعد حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت زید بن حارثہ ؓ اس سعادت سے مشرف ہوئے ان حضرات کے بعد اسلام کی نعمتِ عظمیٰ حضرت عثمان ؓکے مقدر میں آئی ۔ اس طرح آپ السابقون الاوّلون میں نمایاں مقام کے حامل ٹھہرے۔ قبولِ اسلام کے بعد انھیں دوسرے مسلمانوں کی طرح ابتلاء اور آلام کے مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ آپکے خاندان نے آپکے قبولِ اسلام کی سخت مخالفت کی اور آپ کو عملاً بھی بڑے جبر وتشد د کا نشانہ بنایا گیا ۔ لیکن آپکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی، اور آپ اپنے موقف پر بڑی استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ’’آپکے چچا کا یہ معمول تھا کہ جانور کے کچے بدبودار چمڑے میں انہیں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیتا ۔ نیچے سے تانبے کی طرح تپتی ریت اوپر سے عرب کے سورج کی آتشیں کرنیں ۔ اس پر کچے چمڑے کی بدبو ایک عذاب میں اس بڈھے نے بیسوئوں عذابوں کو یکجا کردیا تھا۔ اس طرح اپنے سگے بھتیجے پر وہ دل کی بھڑاس نکالتا پھر بھی دل سیر نہ ہوتا۔‘‘(ضیاء النبی) مکہ میں آپ کو حضور اکرم ﷺ کی دامادی کا شر ف حاصل ہوا۔ بعثت سے قبل حضور کی دو صاحبزادیوں حضرت رقیہ ؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ کا نکاح ابو لہب کے بیٹوں سے ہوگیا تھا جبکہ رخصتی عمل میںنہیں آئی تھی۔ آپ کی دعوت رسالت کی خبر اس تک پہنچی تو اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ حضور ﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دے دیں۔ اس طلاق کے بعد حضور اکرم ﷺنے اپنے صاجزادی حضرت رقیہ ؓکا نکاح حضرت عثمان غنی سے کردیا۔ کہاجاتا ہے کہ یہ مکہ کاخوبصورت ترین ازدواجی جوڑا تھا اور لوگ انکے باہمی تعلق پر رشک کیا کرتے تھے۔ خود حضور انور ﷺ کو اس جوڑے کی روحانی اور جمالیاتی اہمیت کا بڑا احساس تھا ۔ حضرت اسامہ بن زید ؓکہتے ہیں حضور اکرم ﷺنے مجھے ایک دیگچے میں گوشت دیا اور فرمایا کہ یہ عثمان کے گھر پہنچادو۔ میں انکے گھر میں داخل ہوا ۔ وہاں حضرت رقیہ بھی تشریف فرماتھیں۔ میں نے زوجین میں ان سے بہتر کوئی جوڑا نہیں دیکھا۔ میں کبھی حضرت عثمان کے چہرے کودیکھتا اور کبھی انکی باوقار اور پرانور اہلیہ کو (اور اس جوڑے کے ملکوتی حسن وتقدس کودیکھ کر حیران ہوتا) جب واپس آئے تو حضور اکرم ﷺنے (بڑے اشتیاق سے )مجھ سے پوچھا کیاتم وہاں گئے تھے۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں،آپ نے فرمایا: کیا تم نے ان سے اچھا کوئی جوڑا دیکھا ہے میںنے عرض کیا۔ یارسول اللہ نہیں ۔میں کبھی حضرت عثمان کی طرف دیکھتا اور کبھی حضرت رقیہ کی طرف۔(ابن عساکر)