انتخابی صف بندی شروع ، جماعت اسلامی نے امید وار فائنل کردیئے ، باقی جماعتیں خاموش

Aug 09, 2021

لاہور (فاخر ملک) مستقبل میں مرکز اور صوبوں میں ہونے والے الیکشنوں کے لئے  صف بندی  میں جماعت اسلامی نے پہل کردی ہے  جبکہ  پاکستان میں مدت اقتدار پانچ سال ہے لیکن ملک کو درپیش  داخلی اور خارجی چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر کا امکان بہت کم ہے کہ 2023ء سے قبل الیکشن انعقاد ہو سکے۔ تاہم امیدواروں  کے چنائو مین جماعت اسلامی نے مرکز اور صوبہ پنجاب میںکچھ حلقوں کے  لئے  اپنے امیدواروں کے ناموں کو حتمی شکل دے دی جس کے مطابق  جماعت اسلامی کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کو قومی اسمبلی کی 66 نشستوں میں سے 29 اور پنجاب کی 144 سیٹوں میں سے79 سیٹوں پر تجاویز پیش کردیں گئیں ہیں۔ جبکہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعتوں جن میں تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں آئندہ الیکشن کی کوئی تیاری سامنے نہیں آئی۔ تحریک انصاف کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف مشکلات سے نکل آئی ہے اور انہیں اپوزیشن کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس لئے الیکشن قبل از وقت کرائے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ اس سلسلہ میں سینیٹر اعجاز چوھدری نے کہا کہ تحریک انصاف نے اپنے بنیادی نعرہ کرپشن کے خاتمہ کے لئے میدان عمل میں ہے اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پروزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں  2023ء میں ہونے والا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتے گی۔ پاکستان مسلم لیگ کے جن رہنمائوں سے بات ہوئی ان کا خیال ہے کہ آنے والے دس سے بارہ مہینوں میں صورتحال واضح ہو گی کیونکہ فی الحال کسی طرف سے بھی الیکشن 2022 میں ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ پاکستان مسلم لیگ  (ن) آئندہ الیکشن کے لئے جو بیانیہ اختیارکرے گی  اس کے دو پہلو ہوں گے ایک سیاسی بیانیہ اور دوسرا معاشی بیانیہ ہوگا۔ اس ضمن میں مسلم لیگ کی صوبائی ترجمان عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ معاشی بیانیہ (کرپشن پیپر) جاری کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ واضح رہے کہ اس پیپر میں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال جو ان دنوں کرونا کا شکار ہیں، سابق وزرائے خزانہ اسحاق ڈاراور مفتاح اسماعیل  کی مشاورت کو شامل کیا گیا ہے جبکہ اس پیپر کو میڈیا کے سامنے لانے سے قبل شہباز شریف کو منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ الیکشن کے 2023ء میں ہونے کا امکانات کے پیش نظر انتخابی سرگرمیاں آئندہ سال کے دوران شروع ہوں گی جبکہ نئی حکمت عملی کے تحت سابق صدر آصف علی زرداری کی بجائے بلاول بھٹو کو آگے لایا جائے گا۔

مزیدخبریں