آتی ہیں کرب و بلا سے صدائیں حسینؓ کی
اس خاک کو ملی ہیں شفائیں حسینؓ کی
( عدنان سنی عدن )
اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو سیدنا امام حسین بن علی ؓ پر جنہوں نے اپنی عملی زندگی سے اہل اسلام کو جینے اور راہ حق میں قربان ہونے کا سبق دیا- حضرت امام حسین ؓ کی ولادت باسعادت سن 6 ہجری میں ہوئی اور آپکی شہادت کا واقعہ 10 محرم سن 61 ہجری کو پیش آیا، آج بہت بڑا المیہ یہ ھے کہ تقریباّ سبھی علمائ کرام اور ذاکرین حضرت امام حسین رضی اللہ عنہا کے بچپن کے ابتدائی 6 سال اور اسکے بعد صرف شہادت امام حسین ؓ کا زکر کرتے نظر آتے ہیں جو ناکافی ھے اسکے علاوہ آپکی 55 سالہ زندگی پر کوئی روشنی نہی ڈالی جاتی، اگرچہ آپکی شہادت سے بھی ہماری زندگیوں کو " حیات" ملتی ھے لیکن یہاں ہم یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ اس سے کافی عرصہ پہلے بھی یہی کوفی نہ صرف حضرت ذوالنورین عثمان غنی ؓ کے دور خلافت میں انکی درد ناک شہادت کا سبب بنے بلکہ حضرت علی ؓکو بھی ان ہی ظالموں نے شہید کیا، اسکے علاوہ حضرت امام حسین ؓ کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار، زہد و تقوی، عفو و درگذر، فیاضی و سخاوت، جلوت و خلوت، گفتار و رفتار، تواضع و انکساری، خشیت و للہیت، علم و تفقہ، عبادت و ریاضت، جمال و کمال، رواداری، شجاعت و عزیمت، دور اندیشی، فراست، حکمت و دانائی، قرابت داری، محبت و معرفت خداوندی، علم اور متبع سنت ہونے کی باتیں عموماّ نظر انداز کردی جاتی ہیں- اس بات میں تو کوئی شک ہی نہی کہ آپکو انتہائی بیدردی سے شہید کر دیا گیا، لیکن یہ بات بھی غور طلب ھے کہ صرف شہادت کو بیان کرنا اور آپکے اعلی اخلاق، عمدہ اوصاف بہترین کمالات کا تذکرہ نہ کرنا کیا اس بات کی طرف اشارہ نہی کررہا کہ لوگ حسینیت کو صرف بیان کرنا چاہتے ہیں، اپنانا نہی چاہتے۔ آئیے اس جنتی! نوجوانوں کے سردار کی زندگی کے چند مخفی پہلووٰں پر نظر ڈالتے ہیں، اور اسکے بعد اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم حسینی ہونے کے دعوی میں کس قدر سچے ہیں ؟
انسان کی زندگی کا مقصد خدائے ذوالجلال کی خوشنودی اور رضا ھے اسکے حصول کے لئے سیدنا حسین ابن علی ؓ باوجودیکہ جنتی نوجوانوں کے سردار تھے لیکن پھر بھی فرائض کی ادائیگی کے بعد کثرت کے ساتھ نوافل ادا کرتے، فرض روزوں کے علاوہ کثرت سے نفلی روزے رکھتے، آپ نے 25 حج کئے جن میں سے اکثر پیدل کئے، رات کے پہلے حصے میں حضرت حسن رضی اللہ عنہا عبادت کرتے اور رات کے آخری حصے میں حضرت حسین ؓ کے حضور کھڑے ہوجاتے رو رو کر دعائیں مانگتے کثرت سے استغفار پڑھتے اور آپکی عبادات مبارکہ کی عادات شہادت تک برابر جاری رہیں، یہاں تک کہ میدان کرب و بلا میں آخری رات تک عبادت میں مشغول رھیاتنے کٹھن حالات میں بھی نوافل تلاوت اذکار اور عاجزی و انکساری سے دعائیں مانگتے، آپکی عادت شریفہ تھی کہ جب بھی سونے کے لئے بستر پر آتے تو سورۃ الکہف کی تلاوت فرماتے- اور تواضع قرب الہی کا ذریعہ ھے، ایک بار کہیں جا رھے تھے، راستے میں کچھ غریب لوگ مل گئے جو کھانا کھا رھے تھے انہوں نے جب آپکو دیکھا تو عرض کی کہ اے اولاد رسول ؐآپ ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیں آپ سواری سے اترے انکے ساتھ بیٹھے کھانا تناول فرمایا، اور کہنے لگے کہ اللہ تکبر کرنے والوں کو اپنا دوست نہی رکھتا, میں نے تمھاری دعوت قبول کی اب آپ میری دعوت قبول فرمائیں۔ان سب کو لے کر گھر آئے اور انکی خوب خاطر تواضع کی۔ عداوت کدورت اور باہمی رنجشیں صرف افراد ہی نہی بلکہ خاندان کو بھی تباہ کردیتی ہیں جبکہ عفو و درگزر کی بدولت معاشرے میں محبتیں جنم لیتی ہیں اور قائم بھی رہتی ہیں، ایک بار آپکے چھوٹے بھائی محمد بن حنفیہ سے کوئی ایسی بات سرزد ہوگئی جس سے آپکو تکلیف پہنچی، آپ نے بڑے بھائی ہونے کی وجہ سے اظہار ناراضگی بھی کیا، محمد بن حنفیہ فوراّ گھر پہنچے اور حضرت حسین ؓکے نام معذرت نامہ لکھا " آپ کو شرف و فضل کا جو درجہ حاصل ھے میں کسی صورت وہاں تک نہی پہنچ سکتا اگرچہ ہم دونوں حضرت علی ؓ کی اولاد ہیں باپ کی جانب خونی رشتے میں ہم دونوں میں کوئی فرق نہی لیکن والدہ کی جہت سے آپکا جو مرتبہ و مقام ھے میں وہاں تک کبھی نہی پہنچ سکتا، وہ رسول اللہ ؐ کی لاڈلی بیٹی ہیں، اللہ تعالی نے آپکو میرے مقابلے میں جو شرف و کمال بخشا ھے مجھے معاف فرما کر مل لیں کیونکہ اگر میں اس معاملے میں پہل کرگیا تو آپ فضل سے محروم رہ جائیں گے حضرت حسین ؓ خط پڑھ کر فوراّ روانہ ہوئے اور بھائی کو گلے لگا لیا، اس سے ہمیں خونی رشتوں کے تقدس کا سبق ملتا ھے-. بخل اور کنجوسی انسان کے عمدہ اوصاف کو کھا جاتی ہیں جبکہ سخاوت و دریا دلی انسان کے بلندی اخلاق کا مظہر ہوتی ہیں- ایک بار ایک دیہاتی مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھومتا پھرتا آپکے دروازے پہ رک گیا دستک دی اور اپنی غربت و لاچاری کو اشعار کی صورت میں بیان کیا، آپ اس وقت غالباّ نفلی نماز ادا کررھے تھے سائل کی آواز اور فقر و فاقہ کا خیال فرما کر نماز ذرا جلدی مکمل کرلی ، باہر تشریف لائے سائل کی حالت دیکھی تو اس پر فقر و فاقہ کے آثار نمایاں تھے گھر آئے اپنے غلام قنبر کو آواز دی کہ کیا کچھ باقی ھے؟ انہوں نے عرض کی کہ آپکے اہل خانہ کے لئے دو سو درہم رکھے ہوئے ہیں، آپ نے حکم دیا کہ ہمارے اہل خانہ سے زیادہ ان درہم کا یہ سائل مستحق ھے اور سارے درہم اسے عنائت فرما دئیے اس سے ہمیں سخاوت اور لوگوں کی خیر خواہی کا سبق ملتا ھے- ایمان کے خدمت خلق کا جذبہ ایسی نیکی ھے جو اللہ کے دربار میں جلد مقبولیت حاصل کرتی ھے، سیدنا حسین رض میں یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، محمد بن ابی طلحہ ؒ فرماتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ مہمانوں کی خدمت کرتے، محبت کرنے والوں کو خوب نوازتے، محتاج کی حاجت پوری کرتے سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاتے، قرض داروں کو قرض خود ادا کرتے، یتیم سے حسن سلوک سے پیش آتے، جب بھی کہیں سے مال و دولت آتا اسے غریبوں میں تقسیم کردیتے، حج کے دنوں میں حجاج کو زم زم پلاتے، اس سے ہمیں خدمت خلق کا سبق ملتا ھے-. اسلام بڑوں کی عزت کا درس دیتا ھے، خاندان نبوت نے اس درس کو صرف سمجھا ہی نہی بلکہ اہل اسلام کو اپنے عمل سے اسکی تعلیم بھی دی ھے، حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہا نے اکابر صحابہ کرام بالخصوص خلفائ راشدین سے جس عقیدت اور محبت کا ثبوت دیا ھے ایسے ادب و احترام کی مثال نہی ملتی۔ عہد صدیقی میں آپ کم عمر تھے عہد فاروقی کے آخر میں آپ سن شعور کو پہنچے، عہد عثمان میں آپ نے بہت سی دینی اور ملی خدمات انجام دی ہیں خراسان، طرابلس، جرجان طبرستان کی جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا، یہاں تک کہ بلوائیوں نے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہا کے گھر کا محاصرہ کرکھا تھا تو یہی دو شہزادے حسنین کریمین ؓ آپ کے گھر پر محافظ بن کر کھڑے تھے عہد مرتضوی میں آپ اپنے والد کے شانہ بشانہ رھے. اس سے ہمیں خلفاِئے راشدین ؓ سے محبت کا سبق ملتا ھے- شہادت کی تارہخ بہت طویل ھے، ان سب کا خلاصہ یہ ھے کہ اشاعت و حفاظت دین کے لئے حرمین شریفین جییسے مقدس مقامات اور ان کے فضائل و مناقب اور انکی جدائی سہنی پڑے تو سہہ لینی چاہئیے، حق بات پر ڈٹ جانا چاہئے ظلم سے ٹکرانے کے لئے جوانمردی استقامت اور صبر سے کام لینا چاہئے، تلاوت قرآن پاک تسبیحات نوافل مناجات الغرض یومیہ معمولات میں فرق نہی آنا چائیے، شہادت کے بعد اللہ کی رضا پر راضی رہنا اور صبر و ہمت سے کام لینا خاندان حسینی کا یہی ہمارے لئے پیغام ھے-
ان کی میراث میں دشمن کو دعا دینا ھے
اس گھرانے کے سبھی لوگ خدا والے ہیں