واقعہ شہادتِ حسین ؓ اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ پیش آئے واقعات سے ایک بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ اللہ نے جس کسی کو بلند مقام عطا فرمایااسے پہلے آزمائش میں مبتلا کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلے آزمائش سے گزارا گیا پھر منصب امامت پر فائز کیاگیا۔ آزمائش سے راہ فراراختیار کرنے والے ہمیشہ پست رہتے ہیں۔ آزمائش میں کھرے اترنے والے عظیم ہوتے ہیں اور ایمان کے ساتھ ہمیشہ امتحان رہا ہے اس لئے اہل ایمان کو آزمائشوں پر گھبرانا نہیں چاہئے۔ یہ ان کیلئے بلندی درجات کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک عظیم سانحہ ہے روایات کے مطابق رجب 60ھ/ 680 ء میں یزید نے اسلامی اقدار اور دین کی روح کے منافی ظلم، جبر و استبداد پر مبنی اپنی حکومت کا اعلان کیا۔ بالجبر عام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا گیا۔مدینہ منوّرہ میں ایک مختصر حکم نامہ جاری ہوا، جس میں تحریر تھا، ’’حسینؓ ‘ عبداللہ بن عمراور عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے اور اس معاملے میں پوری سختی سے کام لیا جائے، یہاں تک کہ یہ لوگ بیعت کرلیں۔‘‘ (ابنِ اثیر/ الکامل 3/ 263)۔ بعد ازاں، دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سیّدنا حسینؓ نے یزید کے ظلم و جبرپر مبنی باطل نظام کے خلاف جرأت اظہار اور اعلانِ جہاد بلند کیا۔حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا امت مسلمہ کو سب سے بنیادی پیغام یہ ہے کہ انسان کو حق اور دین حق سے اس درجہ عشق ہونا چاہیے کہ وہ حق کیلئے جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرے۔ یزید کی بیعت کے وقت جو صورت ِ حال تھی اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسلامی نظام حکومت اپنی اصل سے ہٹ رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں خلافت کا نظام رائج تھا اور اسلام جس نظام ِحکومت کی بنیاد رکھتا ہے وہ یہی نظامِ خلافت ہے۔ یزید کی آمد کے ساتھ اسلامی نظامِ حکومت خلافت کی ڈگر سے ہٹ کر ملوکیت میں تبدیل ہو گیا اور یہ اسلامی نظامِ حکومت میں ایسی تبدیلی تھی کہ جس کے اثرات صدیوں تک باقی رہے۔ حضرت امام حسینؓ نے اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات کیلئے اپنی جان کی قربانی دی۔ انہوں نے اپنے عمل سے قیامت تک کے لوگوں کو بتا دیا کہ حق کے لیے سر کٹوایا جا سکتا ہے جب کہ باطل کے آگے سر جھکانا مومن کی شان نہیں۔ مومن کا سر حق کے لیے کٹ تو سکتا ہے لیکن باطل کے آگے جھک نہیں سکتا۔ آج امتِ مسلمہ میں جتنے انتشار اور مسائل ہیں‘ وہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے مقصد کو بھلانے کی وجہ سے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے مقصد کو صرف محرم میں نہیں بلکہ ہمیشہ دلوں میں تازہ رکھنے کی ضرورت ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ حق وباطل، خیر وشر، اسلام وکفر کے مابین ہزاروں معرکہ ہوئے ہیں،اور اسلام کا اولین دور توبے شمار شہادتوں سے لبریز ہے،اور جب بھی باطل نے حق کے مقابلہ سر اٹھانے کی کوشش کی، تو حق نے اسکے سر کو کچلا ہے،اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا،لیکن واقعہ کربلاتمام شہادتوں سے ممتاز اور منفرد نظر آتا ہے۔یہ داستان شہادت کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں بلکہ یہ پورے گلشن کی قربانی ہے،اور شہید ہونے والوں کی آپ کیساتھ خاص نسبتیں ہیں۔حضرت حسینؓ کی شہادت سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کو نا مساعد اور ناموافق حالات میں بھی حق پر جمے رہنا چاہئے اور حق سے وابستگی میں کمزور ی آنے نہ دینا چاہئے۔ لوگ عام طورپر موافق حالات میں توحق کو اپناتے ہیں لیکن جب نامساعد حالات کا سامنا ہو تو ان کیلئے حق پر اور دین پر جمے رہنا دشوار ہوجاتا ہے، پھر وہ باطل سے سمجھوتہ کرنے میں عافیت سمجھنے لگتے ہیں۔ موافق حالات میں دین پر جمے رہنا کوئی کمال نہیں، کمال تو یہ ہے کہ ناموافق حالات میں بھی دین کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ آج کتنے مسلمان ہیں کہ ناموافق حالات میں شکوہ و شکایت شروع کردیتے ہیں اور دین حق سے وابستگی میں انہیں خوف محسوس ہونے لگتا ہے۔ آج اسی ’’حیات‘‘ کے دور کو امتِ مسلمہ محسوس کر رہی ہے۔ آج کشمیر سے فلسطین تک تک میدان ہائے کر بلا مسلمانوں کو جذبہ حریت سے سرشار کیے ہو ئے ہیں۔حسینؓ و یزید ایسے دو کردار ہیں جنہیں ہر دور میں دنیا اپنے سامنے پاتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان حسینیت کا ساتھ دے کر حق و صداقت کے علم کو بلند کریں اور یزیدیت سے اعلان برات کریں تب ہی کامیابی ہمارا مقدر بن سکے۔
٭…٭…٭