صدیاں حسین ؓکی ہیں زمانہ حسین ؓکا

ہماری فخر و انسباط پر مبنی حسین و جمیل واقعات و روایات سے بھری اسلامی تاریخ کا یہ منفرد پہلو ہے فکرو فلسفہ سے لبریز بھی ہے اور اپنے پیروکاران کی راہنمائی کا انداز دلآویز بھی ۔لیکن بد قسمتی سے تاجرانانہ ذہنیت کے حامی ذاکرین اور علمائے سو نے تدبر و تفکر کے روشن پہلوئوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ان عظیم قربانیوں کے ارفع و اعلیٰ مقاصد پس پشت ڈال دئیے ۔
 ورنہ ایک ایک لفظ اور ایک ایک سطر بلندی فکر اور علم و عمل سے بھر پور ہے ۔دور نہیں جا ئیے !حضرت ابراہیم ؑ سے آغاز کر دیجئے ۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق 
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی 
(اقبالؒ)
 ہمارے ہجری سال کا آخری مہینہ ذوالحج باپ بیٹے کا حکم الٰہی کے سامنے شفقت پدری کو قربان کر دینا اور نذرانہ جاں پیش کرتے ہوئے قربانی کی عظیم مثال پیش کرنا ۔ اسلامی سال کا پہلا مہینہ بین دلیل ہے کہ مسلمان کی ابتداء و انتہا ایثار و قربانی ہے ۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم 
نہایت اسکی حسین ؓ ابتداء ہے اسماعیل 
چو ں می گوئم مسلمانم بلرزم 
کہ دانم حقیقت لا الہ را 
(اقبالؒ) 
ترجمہ: جب میں مسلمانی کادعویٰ کرتا ہوں تو کانپ اُٹھتا ہو ں کہ لا الہ کی حقیقت سے آشنا ہوں ۔
 چند لفظوں میں فلسفہ و اہمیت و عظمت کربلا کو سمیٹنا ممکن نہیں ۔امر بالمعروف نہی عن المنکر اور سورۃ العصر و سورۃالکو ثر جیسے فرامینِ قرآن ـ"برائی ہاتھ سے روکو ، اسکی طاقت نہیں رکھتے تو زبان سے منع کرو اور اسکی بھی طاقت نہ رکھو تو دل میں بُرا جانو" (حدیث مصطفوی ﷺ)کی عملی تعبیر و تفسیر اس سے بہتر کیا ہو گی ۔ یوں تو شہادت حضرت عمر ؓ کی ہو، حضرت عثمان غنیؓ کا شہر رسولﷺ کو خون ریزی سے بچا کر حرمت رسول ﷺ کا پاس رکھتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کر نا جیسی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن واقعہ کربلا اور اس کے کردار ایک واقعہ تک محدود نہیں کئے جا سکتے بلکہ ابد سے ازل تک حسین عالی مقامؓ حق و صداقت کا استعارہ ہیں تو یزید کذب ظلم و استبداد اور مجسم اور ا بلیسیت کا استعارہ یہ دو ہستیوں کی نہیں دو فکروں کی جنگ تھی ۔ فکر حسینیت لا الہ کی خاطر تمام تر کمزوریوں سفر و حضر خاندان جان و مال کی پرواہ کئے بغیر باطل سے ٹکرا جانے کا فکری پیغام جس سے حسینیت اور یزیدیت دو فکروں نے جنم لیا ۔
جب خیرو شکر میں دقت تفریق ہو گئی 
بے ساختہ حسین ؓ کی تخلیق ہو گئی
 راہ حق کے مسافروں امت مصطفی کے یہ حوصلہ ملا کہ:
 افضل ہے کُل جہاں میں گھرانہ حسینؓ کا 
نبیوں کا تاجدار ہے نانا حسینؓ کا 
 ایک پل کی تھی بس حکومت یزید کی 
صدیاں حسینؓ کی ہیں زمانہ حسینؓ کا 
 اُمت مسلمہ فلسفہ وفکر حسینؓ سے دوری کی وجہ سے جن اخلاقی، فکری ، معاشرتی بحرانوں کی زد میں ہے ان کا حل محض درود و سلام اور عقیدتوں کے زبانی نذرانوں میں ہی نہیں یہ بھی ضروری ہے کہ امام حسینؓ کی جرات و بہادری صبرو استقلال کی لازوال داستانوں کو تحریر و تقریر سے اجاگر کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کو بیدار کیا جائے لیکن اس سے بڑھ کر خراج عقیدت یہ ہے کہ جس اسلام کی اعلیٰ اقدار اور عظمت و حُرمت کی حفاظت کیلئے جابر فاسق و فاجر قانون و آئین شکن، بے حیائی کے پیکر ، رقص و سرور کی بزم رچانے والے اسلام دشمن حکمران یزید کی بیعت (ووٹ) کے انکار سے جو عملی درس دیا اس پر عمل کرتے ہوئے آج کے یزیدوں سے ٹکرا یا جائے ۔یہی حسینؓ سے محبت کا بہترین تقاضا ہے اور حسینؓ سے محبت کرنا اللہ سے محبت کا بہترین ذریعہ بھی ۔" حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ، اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے جو حسینؓ سے محبت رکھتا ہے" 
( حدیث کے راوی یعلی ابن مرۃ)
 اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں ہمارے اقوال حسینیؓ تو ہمارے اعمال یزیدی تو نہیں ؟
عجیب تیری سیاست عجیب تیرا نظام 

یزیدیت سے بھی مراسم حسین ؓ کو بھی سلام
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن