پیر سید عرفان مشہدی موسوی…
روح حریت، جبل استقامت، حقوق انسانی کے عرش مقام اور سردار جوانان جنت حضرت سیدنا امام حسین ؓکی ولادت باسعادت مدینہ منورہ میں 3 ہجری کو ہوئی ۔آپ کے نانا جان سید العالمین حضرت محمد مصطفیؐ ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ رسول خدا کی لخت جگر جنتی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہؓوالد گرامی مولائے مسلمین امیر المؤمنین علی المرتضٰیؓ ہیں۔ آپ کے تایا غزوہ مؤتہ کے شہید جنت میں بلند پرواز حضرت جعفر طیارؓ ہیں۔ آپ کے والد گرامی کے سگے چچا اسداللہ واسدالرسول حضرت سیدنا امیر حمزہ ؓہیں. امام حسین اللہ رب العزت کی مخلوق میں سب سے بلند مرتبہ آل ابراہیمؑ کے کے فرد کامل ہیں یقیناً بالا نسب ہیں. خاندان عالی وقار کی تاریخ اعلا کلمتہ اللہ کے لیے قربانیوں کے ساتھ عبارت ہے۔ منیٰ میں حضرت اسماعیل ؑکی ذبح عظیم لیکر بدر و احد. خندق وحنین سے لیکر کربلا معلیٰ تک سب عشق کی حرارت اور آل پاک کا طرہ امتیاز ہے۔ جس پر وحی الہی کی شہادتیں موجود ہیں۔ اس خاندان اہل بیت کو گنج شہداء کہنا زیبا ہے۔ جس کے مردان حر ظلم وکفر کے طغیان کے خلاف جانیں پیش کرنے والے ہیں. امام عالی مقام اس گلشن کے وہ گل سر سبد ہیں کہ حضرت محمد مصطفیؐ نے اپنا پھول قرار دیا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم کو فرماتے ہوئے سنا کہ دنیا میں حسن وحسین میرے دو پھول ہیں (بخاری ترمذی)
اسی لیے حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ امام حسن وحسینؓ کو سونگھتے اور فرماتے مجھے ان دونوں سے محبوب کریم ؐ کی خوشبو آتی ہے ۔کیوں نہ ہوتا جب رسول اللہؐ امام حسینؓ کو اپنے وجود اطہر کا جزو بلکہ اپنی صفات طیبہ کا ظہور قرار دیتے ہیں. حضرت یعلی بن مرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں. جو حسین ؓسے محبت رکھے گا اللہ اس سے محبت رکھے گا۔ حسین بچوں میں ایک خاص بچہ ہے..( سنن ابن ماجہ. جامع ترمذی) اس پر علو مرتبت سید الانبیاء ؐفرماتے ہیں: حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ میں رات کو کسی حاجت کے لیے کاشانہ نبوت میں حاضر ہوا کوئی چیز رسول اکرم کے جسم مبارک سے لپٹی ہوئی تھی. جسے میں سمجھ نہ سکا. جب حاجت سے فارغ ہوا. تو عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ نے کیا اٹھا رکھا ہے۔ آپ نے جب کپڑا ہٹایا تو حسن وحسینؓ آپ کی کمر مبارک پر تھے. آپ نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں. اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور اس سے محبت فرما جو ان سے محبت کرے. (جامع ترمذی) اللہ جل شانہ نے امام حسن وحسین ؓکے اجساد کو اپنے نانا جان کے وجود اطہر سے کامل درجہ مشابہت عطا فرما دی. حضرت علی المرتضٰیٰؓ فرماتے ہیں کہ حسن سر سے سینے تک اور حسینؓ سینے سے قدمین تک رسول اللہؐ کے مشابہ ہیں۔ (ترمذی) امام حسین عالی مقام ابن رسول ہیں، خوشبوئے رسول ہیں، وجود باوجود اشبہ باالرسول ہیں ان سے محبت رسول اللہ سے محبت اور رسول اللہ سے محبت اللہ پاک سے محبت اور دعائے رسول کریمؐ میں قبولیت ہر قسم کے ارتیاب سے ورا ہے. حسین پاک کا چاہنے والا اللہ کاپسندیدہ ہو جاتا ہے. امام عالی مقام ؓکا نام مبارک حسین رسول اللہ نے رکھا۔ انکو گھٹی لعاب دہن اقدس کی دی۔کان میں آذان خود رسول اکرم ؐنے دی۔ سات سال کی عمر مبارک میں آل رسول کے امتیازی شعور کے ساتھ شرف صابیت سماع حدیث رسول اس پر مزید روایت حدیث رسول کا شرف سرور انبیاء کا فیضان نظر بھی۔ مکتب سیدہ فاطمہ کی کرامت بھی باب شہر علم علی المرتضیٰ کی تربیت بھی۔ خلیل اللہ ؑکی آل ابراہیم کے حق میں یہ دعا
کہ انکو متقین کا امام وپیشوا بنایا، اس شرف کے ساتھ حسین عالی مقام کا قافلہ سالار عشق اور امام اولالعزم ہونا انکا عالی منصب ہے جس پر آپ فائز ہوئے۔ کار زار ہستی میں امام عالی مقام نے اس عالی اور نازک منصب کو جس عزیمت سے نبھایا تاریخ اسکی نظیر پیش کرنے سے قاصر رہے گی۔ امام حسین ؓ نے ملوکیت. جبر واستبداد وآمریت کے خلاف جس مجتہدانہ بصیرت سے سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کی بلندی اور ظلم وجور کے عفریت کا پنجہ مروڑنے کی جو عزیمت دکھائی. وہ دور حاضر کے عقلی حیلوں بہانوں اور بے عملی کے مارے ذہنوں کی بحث سے بہت بلند ہے. جو مدت طویل سے محض انقلاب کے خوابوں میں اونگھ رہے ہیں۔حسینی کردار میں ابراہیمی سیرت خلوہ گر ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عصر حاضر میں اسلام مسلمان اور جریدہ عالم پر پھیلی ہوئی امت مسلمہ غور کرے عقیدہ توحید بھی وہی. دین اسلام بھی وہی تلاوت قرآن بھی وہی پیغام رسالت کی تبلیغ میں امت سر گرم لیکن امت کی زبوں حالی وانحطاط کچھ تو ہے جو ملت اسلامیہ کے ارباب قلب ونظر پریشان کیے رکھتا ہے. نباض قوم علامہ اقبال اسکا واضح سبب بتا رہے ہیں...
قافلہء حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات